کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 37
ودیت تھا۔ ایک فرد کے قتل کی ذمہ داری پورے قبیلہ پر ڈالی جاتی تھی۔ افراد وارکان کی حفاظت پورے خاندان وبطن وقبیلہ کا فرض تھا۔ قبیلہ وخاندان سے وفاداری، تابعداری اور اس کی آن پر جان دینے کی روایت بھی مستحکم تھی۔ مالی معاملات میں تجاوزات کی ایک طویل فہرست ملتی ہے جن کا سرنامہ سود وربا کی مالی نظام میں کارسازی تھی لیکن وہ سب کی علت وبہیمیت نہ تھی۔ مالداروں میں بھی”مروءۃ“عرب کا قریشی روایتی حلم وکرم کا، بدویوں میں سماحت وسخاوت کا اورحنفاء میں دین حنیفی کے اثرات کا غلبہ تھا۔ مروت(مروءۃ) کا مجموعہ خیرات وصدقات صدق وسچائی، امانت ودیانت، حلم وکرم، سخاوت فیاضی، صلہ رحمی، اقربا پروری، مسکین نوازی، مہمانداری، مظلوم کی دستگیری، بدحال کی دادرسی، غلاموں اور کنیزوں کی آزادی، اسیروں وگرفتار ان بلا کی فدیہ نوازی جیسے اوصاف حمیدہ پر مشتمل تھا۔ اس جاہلی عرب ماحول اور قریشی ومکی فضا میں حاتم طائی، عبداللہ بن جدعان، ابوبکرصدیق، حکیم بن حزام اورخاندان رسالت کے جد امجد اوراکابر نے معیار قائم کیا تھا۔ اکابر قریش میں ولید بن مغیرہ مخزومی، عاص بن وائل سہمی اور متعدد دوسرے شیوخ وافر ادخاندان نے العدل، الامین، ذوالقلبین جیسے القاب اپنی خوبیوں سے لیے اورحضرت خدیجہ بنت خویلد اسدی جیسی خواتین نے طاہرات ومحسنات کے مقامات اپنی طہارت وپاکیزگی اور امداد باہمی کے ناطے حاصل کیے تھے۔ ان اوصاف کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ (19) بعثت نبوی کے بعد خالص مکی دور سیرت کی صحیح تفہیم وافہام میں علماء وصاحبان سیرت دونوں نے اپنی کوتاہی سے ایک ہمالیائی قصور کیا ہے۔ وہ ہے قرآن مجید کی مکی سورتوں کی صحیح تفہیم وتشریح اور سیرت نگاری اور مکی دور کے تجزیاتی مطالعہ میں مکی آیات بابرکات کا اطلاق نہ کرنا۔ اس باب قصور وکج فہمی میں یہ خیال خام زیادہ سدراہ ہدایت بنا کہ مکی سورتوں میں صرف اخلاقی تعلیمات دی گئیں اور احکام وقوانین نہیں ہیں۔ احکام و قوانین کو اخلاقیات سے جدا کرنے کا الزام علماء واسلام ومفکرین ملت اور سیرت نگاران امت دوسروں کے سردھرتے ہیں اور خود کو بھول جاتے ہیں۔ اسلامی احکام وقوانین اور تعزیرات وضوابط کا خاص طرہ امتیاز وافتخار تو یہی ہے کہ وہ اخلاقیات عالیہ کی بنیادوں پر