کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 36
تھے۔ قریش مکہ کے خاص امتیازات میں سے بیت اللہ الحرام کے شعار محسوس اور اس سے وابستہ طواف وزیارت وسعی اور زم زم وغیرہ سے عشق خاص تھا۔ دین حنیفی کے زیر اثر عام عربوں میں بھی حرام وحلال کا تصور تھا اور محرمات سے اجتناب کا عمل بھی، ذبیحہ معمول تھا، غیر ذبیحہ حرام سمجھتے، شراب وسود کو بھی حرام جانتے تھے۔ عام خیرات ومبرات میں حنیفی پیروان مکہ وعرب خیر وشر اور نیکی بدی کے تصورات سے واقف تھے اور اجروثواب کے حصول کی خاطر متعدد نیک کام کرتے تھے۔ (18) جاہلی عرب اور قبل بعثت نبوی کے قریش مکہ کے افراد وطبقات میں رذائل، خرافات اور متعدد انحرافات وتجاوزات پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ عام طور سے جاہلی زمانے کی متاخر صدیوں کو تاریک ترین اور بدترین بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ جب ان کے باشندوں میں خیر تھا ہی نہیں، صرف شر اور اندھیرا ہی تھا، بت پرستی اور شرک کی متعدد اقسام کا عام دورہ تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کے تصور وعقیدہ اور ایمانیات کے متعدد شعبوں میں حنیفی بھی تھے۔ سماجی برائیوں میں زنا، بدکاری، جوا وقمار بازی، شراب نوشی وخانہ خراب کی تیاری وتجارت، نوزائیدہ بچیوں کے قتل، نکاح المقت، قتل وفساد اور الزام تراشی وبہتان طرازی جیسی بیماریوں میں مبتلا تھے لیکن ان میں سے متعدد خرابیاں اور کوتاہیاں عوامی نہ تھیں شخصی، محدود تھیں اور نفرت انگیز بھی سمجھی جاتی تھی۔ سوتیلی ماں یا باپ کی منکوحہ سے نکاح کو نکاح المقت(نفرت انگیزنکاح) گردانتے تھے اورصرف دس بیس افراد اس کے مجرم اس پورے زمانے میں رہے تھے۔ زنابدکاری کے نام ہی ان کی نفرت انگیز اور ناپسندیدہ حیثیت کو اجاگر کرتے ہیں اور شرفا وخواص بالعموم اور شریف ومعزز خواتین اس سے محفوظ ومعصوم تھیں۔ شراب نوشی کی عادت عوام وخواص میں خاص راسخ تھی مگر اس کے ام الخبائث ہونے کا تصور ان کو اس کاروبار خبائث سے روکتا تھا اور متعددا کابر اس سے جدا رہے۔ نومولود بچیوں((الْمَوْءُودَةُ)) کا قتل بالعموم چند بدوی قبائل کے بعض افراد تک محدود رہا تھا۔ وہ عام بلا اور ابتلائے عام نہ تھی۔ حنفاء نے اس پر روک بھی لگائی۔ قتل وفساد کی روک تھام او رسدباب کا ایک موثر نظام جاہلی عرب کا قانونِ قصاص