کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 35
مذہب تھا اور اصول وعقائد وارکان چار یا چھ حنفاء مکہ وقریش کا دین حنیفی مبہم ونقص، بلا سمت وراہ، اور بے وزن وبے اثر بنا کر پیش کیا گیا، وہ صرف افراد کا اشخاص کا معاملہ ہوسکتا ہے قریش مکہ کے تمام پیروان دین ابراہیمی کی شخصی زندگی اور ان کے معاشرتی و دینی نظام میں ملت ابراہیمی کے بقیہ کا اثر ورسوخ واضح تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنے شاہ کارحکمت واسرار دین میں صرف ایک باب مختصر میں اس کا حقیقی روپ سروپ مدلل ومستند کرکے پیش کیا ہے۔ عقائد میں تمام جاہلی عرب اور خاص کر قریشی افراد وطبقات اللہ تعالیٰ کو خالق کل، مالک کائنات اور رب العالمین تسلیم کرتے تھے اور بندوں کی تکلیف۔ تکلیف العباد۔ کے قائل تھے اور آسمان وزمین اور اجرام فلکی اور تمام بڑی بڑی چیزوں کا خالق ومدبر مانتے تھے۔ ان کا شرک مددگاروں کے عقیدہ میں تھا۔ وہ تقدیر الٰہی کے عقیدہ کو بھی مانتے تھے ۔ ملائکہ اور فرشتوں کو مقرب بندگان الٰہی اور مدبران نظام کائنات کے ساتھ بنات الٰہی اور سفارشی سمجھتے تھے۔ رسالت کے ادارہ اور رسولوں کی نبوت کے عقیدہ پر قائم تھے۔ اور حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہما السلام کی نبوت ورسالت پر فخر کرتے تھے کہ وہ ان کے جد امجد تھے۔ ملائکہ کے واسطوں سے رسولوں اور نبیوں پر وحی لانے اور کتابیں نازل کرنے کے قائل تھے اور کتب سماویہ پر ایمان رکھتے تھے۔ وہ رسول آخر الزمان کے بھی منتظر تھے۔ معاد وآخرت کا تصور وعقیدہ اگرچہ توحید ورسالت وغیرہ کی طرح مشرکانہ انحرافات کا شکار ہوگیا تھا مگر وہ یوم آخرت وقیامت کو تسلیم کرتے تھے۔ احکام واعمال میں جاہلی حنیفی قریش وعرب طہارت کا تصور وعمل رکھتے تھے اور غسل طہارت وغسل جنابت پر عمل کرتے تھے۔ وضو کا بھی رواج وفرض ان میں تھا۔ دراصل وہ خصائل فطرت کے اجزاء تھے اور ان خصائل کو سنن انبیاء کرام اور خاص سنن ابراہیمی جان کر ان کو دینی وسماجی سنن موکدہ سمجھتے تھے۔ اسلام کے دین حنیفی جاہلی روپ میں قریش مکہ اور عرب قبیلے بالخصوص ان کے خواص واکابر نماز، روزہ، صدقہ، زکوٰۃ اور عمرہ حج کے ارکان ادا کرتے۔ رمضان میں جو ار و اعتکاف پر عامل اور ان کے مقامات ِ عزلت وخلوت کے انتخاب واحترام اور تقدس کو ابراہیمی سنن وروایات میں شمار کرتے