کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 34
جبریل السلام کا نام نامی دیا گیا ہے اور روح، روح القدس جیسے دوسرے اسماء وصفات سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ کتب الٰہی اور صحف سماوی کی ظاہری شکل اور معنوی قدروقیمت میں وہی تسلسل وارتقاء نظر آتا ہے جو ان کے حاملین کرام میں تھا:اول کی مصدق اور جانشین کی پیش گو۔ زبان وبیان کا ایک اصول یکساں جاری وساری رہا:سب انبیاء کرام اورحاملین کتب اپنی اپنی قوم کی زبان میں مرسل ہوئے تاکہ قومیں سمجھ سکیں۔ زبانوں کا اختلاف وتنوع آیات الٰہی میں سے بلاشبہ ہے مگر انسانی مادی تہذیب وتاریخ میں سماجی ضرورتوں کے عین مطابق اور کلی اقدار کے موافق بھی ہے۔ حضرت محمد بن عبداللہ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ میں بعثت ونبوت اور اولین جولان گاہ رسالت ودعوت ان تمام نبوی مراحل وعطایا کا اوج کمال ہے۔ خلیل الرحمٰن کی ملّت بیضاء حنیفیہ سمحہ کا احیاء واکمال ان کی دعائے مستحباب کے صدقہ میں ان کی نسل ابراہیمی/ اسماعیلی میں مرکز عالم ناسوتی وملکوتی مکہ میں ہی ہونا تھا کہ وہیں اولین بیت اللہ موجود اور ضوفشاں تھا اور جس کی تعمیر نوکاکارنامہ خلیل الرحمٰن نے اپنے فرزند ذبیح اللہ کے ساتھ اسی مقصد عظیم کے لیے کیا تھا۔ تمام کتب الٰہی کا جامع وکامل ترین نسخہ قرآن کریم کی صورت جمیل میں عربی زبان میں دیا گیا۔ وہ عربی جو ام القریٰ کے لوگوں کی زبان تھی اور دوسرے قریوں کے لیے مثال۔ سید المرسلین اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کرام کے ظاہری شمائل اور باطنی خصائل کے عظیم ترین پیکر تھے۔ اور ملت بیضاء کے مقتدیٰ اعظم کے ہم شکل۔ مکہ مکرمہ صرف ان کی ارض زاد بوم نہ تھا بلکہ نبوت ورسالت ختم المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی سرزمین او ربنیادی جولان گاہ تھی اور اسی پر تعمیر ہونی تھی۔ (17) دینی حنیفی ملتِ ابراہیم حنیف کا عام نام تھا اور اسے حنیفیت سے بھی تعبیر کیا جاتا تھا اور اس کے شائبہ شرک سے پاک حاملین کو حنفاء کہا جاتاتھا۔ قریش مکہ کے صرف چار مشہور ترین حنفاء کا ناقص تذکرۃ امامانِ سیرت نے کرکے ان کی تعداد، اثرات، اعمال حتیٰ کہ آغاز کا معاملہ غتر بود کردیا۔ وہ صرف بعثتِ نبوی سے چند برسوں کا تازہ اور نیا ارتقا نہ تھا بلکہ قریش مکہ کا بالخصوص اور دوسرے عرب قبائل کا بالعموم دین و