کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 33
السلام کی سیرت ودعوت نے اپنے اپنے زمانے اور مقام میں حیات انسانی اور بشری عمرانیت میں مسلسل اضافہ اورمبارک عطیہ دیا۔ ان کی امتوں نے اپنے کفر وایمان، عمل صالح اورفعل فاسد سے تہذیب وتاریخ انسانی میں ارتقاء صالح کے یا ارتقاء معکوس کے مظاہر وحوادث جوڑے۔ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تک آتے آتے نبوی سیرتوں کا مجموعہ عطر اور حسین ترین امتزاج اورجلیل ترین کمال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتہذیب میں ودیعت کردیا گیا۔ ایک معنی خیز حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادارہ نبوت کے عالیشان اور کامل عمارت کی تکمیل ختم نبوت کےحامل اعظم کے شخص وشخصیت سے ہوئی اور تاریخ وتہذیب کا مطلوبہ معیار قائم ہوگیا۔ (16) تمام انبیاء کرام اور رسولانِ عظام کی تعمیر سیرت اور تشکیل شخصیت کا ایک وحدانی، یکساں او رانسانی نظام وتربیت بھی جاری رہا۔ حضرات نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، اسحاق ویقوب علیہما السلام، یوسف ویحییٰ علیہما السلام اور موسیٰ علیہ السلام، کے قرآنی قصص اور حدیثی بیانات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان کی نبوت وبعثت اور دعوت وارشاد، تربیت وتعلیم، تعمیر شخصیت اور تشکیل امت کے مماثل طریق کے ساتھ تاریخ وتہذیب کی تعمیر کا طریقہ بھی ایک تھا:مکی اور مدنی ادوارِ حیات وسیرت اور کارہائے دعوت وتبلیغ کے سابق پیشرونمونے تمام انبیاء کرام کی سیرت ودعوت کے حوالے سے قرآن میں ملتے ہیں۔ وہی ابتدائی دور میں شخصی سیرت وحیات کی کسمپرسی، فقروفاقہ پر مبنی حیات وزندگانی، قناعت و توکل کی عادت اور بچپن وجوانی کی اٹھان سب کی تھی۔ بعثت ونبوت سے ہر ایک کی سرفرازی، اس کی شروط واقدار اور بتدریج ارتقاء وتکمیل کو قرآن عظیم نے((وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ)) سے تعبیر کیا ہے۔ حضرات یحییٰ وعیسیٰ علیہما السلام بظاہر اس سے مستثنیٰ نظر آتے ہیں کہ ان کو خاص مقاصد سے بچپن میں نواز دیا گیا تھا مگر حقیقت میں ان کا بچپن استواء سےآراستہ کیا گیاتھا۔ حضرت ورقہ بن نوفل اسدی نے اور حضرت نجاشی کی پیشگوئی اور تصدیق کے مطابق انسانی سماجی ماحول میں سب پر ایک ہی ناموس اکبر کے اترنے کا اثبات کیا گیا ہے۔ کلام الٰہی میں اسی ناموس اکبر کو بالعموم حضرت