کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 30
بخوبی نکال سکتے تھے۔ اور ان بنیادی اسلامی علوم وفنون میں تجزیاتی مطالعہ ونگارش کا عہد ساز، عالمگیر اورکسی قدر کامل وجامع تجربہ کرسکتے تھے تو اہل سیروتاریخ کیوں قاصر رہے؟ان کا اصل المیہ اوربنیادی قصور یہی رہا کہ وہ صرف روایات سیرت واخبار تاریخ کو بیان کردینے اورمختلف بلکہ چند مآخذ سے ان کوچن لینے کو کافی سمجھتے رہے ان کے اس طریق نگارش اس میں اصل عامل ومحرک منہج مطالعہ نے صرف مکی دورحیات مبارک کو ہی قاصر وناقص نہیں بنایا بلکہ مدنی دور کو بھی اسی طرح روایات واحادیث کا صرف بیانیہ بنا کر رکھ دیا۔ اور دونوں میں جب توازن واعتدال اور تجزیہ وتحلیل کا وقت آیاتو مدنی دور میمون کی سلطانی نے ان کو حاکمیت وغالبیت اور فرمانروائی وجہاں گیری وجہاں بانی کا ایسا خوگر بنادیا کہ وہ اس سلطانی کی بنیادوں کو بھول گئے۔ (11)۔ مدنی عہد نبوی کی سلطانی اور سیاسی وفوجی فرمانروائی بلاشبہ ایک حقیقت ثابتہ ہے اور اعلائے کلمۃ اللہ کی ایک مادی صورت۔ ا س سے زیادہ اور اصل حقیقت امری تو یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح مکی دور بابرکات میں اللہ کے رسول آخرین تھے اسی طرح مدنی دور نتائج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی، ازلی وابدی اور زمان ومکان سے پرے اور بلند حیثیت ومرتبت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ حیثیت و مرتبت ہی تھی اور وہی حاکم وقاطع تھی۔ مگر انسانی نفسیات اور خاص کرمسلم حسیات میں سلطانی اور فرمانروائی کی اضافی قدر ایسی گہری اور وسیع پیوست ہیں کہ وہ ان کی سائیکی بن گئی ہے۔ وہ اسلام ودین، شریعت ونبوت اور حکمت وطہارت کے گن گانے کے باوجود جب تک اسے ریاستی وحکومتی آلائشوں سے ملوث نہ کرلیں عظمت کاتصور نہیں کرسکتے۔ تمام ترقدیم سیرت نگار و تاریخ نویس خلافت اسلامی کے عروج وکمال اورسیاسی وفوجی برتری وفوقیت کے زمانے کا پروردہ وپرداختہ ہی تھے۔ وہ مکی دور نبوی کو مدنی اور نبوی کے آئینہ ہی دیکھتے اور دکھاتے ہیں اور اس کے عکس معکوس میں جب سلطانی طمطراق نہیں دیکھتے تو اسے فرومایہ سمجھتے ہیں۔ قدیم سیرت نگاروں نے مدنی پیش منظر میں مکی عہد اولیں کے واقعات سیرت کودیکھنے اور دکھانے کی سلطانی عادت یا پدرم