کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 298
دواب، دابہ پھیلا دیے ہیں۔
تیسری اہم حقیقت ان کی ساخت کو بتاتی ہے کہ ان میں سے کچھ دو پیروں پر چلتے ہیں، کچھ چار پیروں پر اور کچھ اپنے پیٹ کے بل رینگتے ہیں اگرچہ یہ سورہ نور45مدنی ہے مگر اس کی حقیقت ازلی اور آفاقی ہے کیونکہ دابہ اور دواب کی لغوی ماہیت ان کو اسی ساخت کا حامل بتاتی ہے۔
انعام جمع ہی میں بمعنی مویشی آیات قرآنی میں آیا ہے جیسے:انعام 36۔ 1، 3، 139، 142، یونس :24، نمل:5، 16، 80، مومنون: 21، شعراء:133، فاطر:28، زمر:6، شوریٰ:11زخرف12، فرقان:49، یٰس:71، طہٰ54نازعات:33، عبس32، سجدہ27، ان میں سے بعض آیات میں ان کی مزید تعریف بہمیۃ الانعام بیان کی ہے جو سورہ حج کی آیات میں ہے۔
مکی قرآنی آیات میں ان کی خاص درجہ بندی کی گئی ہے۔ ایک سورہ زمر:6کے مطابق انعام (مویشیوں) کے آٹھ نرمادہ جوڑے ہیں اور ان میں سے بھیڑ بکری، گائے اور اونٹ کے نر مادہ جوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ شوریٰ 11 میں بھی انعام کے ازواج کی صراحت مزید ملتی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ سواری کے جانور ہیں اور کچھ کھانے کے مویشی جیسا کہ سورہ غافر مذکورہ بالا میں ہے۔ (( لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ))
ان کی ساخت و خلقت خاص کر سواری کے جانوروں میں ایک کو حمولہ (لادو)قراردیا ہے اور دوسری قسم کو دبے (فرشا)یہ حقیقت سورہ انعام :142 میں ہے۔ (( وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ))شاہ عبدالقادر نے حمولہ (لادنے والے) جانوروں سے اونٹ اور بیل مراد لیے ہیں اور دب جانوروں سے بکری اور بھیڑ۔ موخر الذکر پر سامان نہیں لادا جاتا۔ لیکن ان دونوں قسم کے جانوروں سے صرف یہی مخصوص جانور مراد نہیں ہیں