کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 291
بری ہواؤں کا ایک مختلف بیان آیات مکی میں ملتا ہے۔ وہ مختلف قسموں کی ہیں جیسے ریح، عاصف، ابراہیم : 18، ریح عاصفہ برائے حضرت سلیمان علیہ السلام انبیاء 81، سبا: 12، ص:36۔
عذاب کی ہوائیں احقاف :24، ذاریات:41، حاقہ:6(ریح صرصر) نیز فصلت16، قمر:19 بشارت والی ہوائیں بھی ہیں جیسے اعراف :57، حجر:22، فرقان:48 نمل:62، روم :46، 48، فاطر:9جو بارش لاتی ہیں اور بارش لانے سے قبل اس کی بشارت دیتی ہیں۔
سمندروں اور ان میں ہواؤں کے چلنے اور ان کے سبب کشتیوں کے تیرنے کا بیان قرآن مجید کی مکی آیات میں اتنا محیر العقول ہے کہ وہ نہ جانے کتنی گرہیں کھولتی ہے۔
خشکی اور تری برو بحر کی جغرافیائی تقسیم کا حوالہ سورہ انعام :59، 62، 67، یونس:22، ابراہیم32، اسراء 70 وغیرہ میں ہے۔
بحر میں کشتیوں کے آرام سے تیرنے کی ذمہ دار ہلکی ہواؤں اور سمندری لہروں کے سکون کا ذکر متعدد آیات مکی ہے: ابراہیم 32، اسراء: 66وغیرہ سمندر میں سخت اور تیز و تند ہواؤں کی وجہ سے کشتوں کے غرقاب ہونے کے خطرات و خدشات کا بیان اور ان کے سبب انسانی اضطراب و قلق خوف و دہشت اور عالم و حشت میں انابت الی اللہ اور اس سے نجات پاتے ہی کفران نعمت کی فطرت کافرہ کا بیان بہت عمدہ ہے۔ اسراء 67یونس 22، ((حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ))النمل:14، آیت سورہ یونس میں دو قسم کی سمندری ہواؤں کا ذکر کیا ہے۔ ریح طیبۃ اور ریح عاصف، اسراء69((قَاصِفًا مِّنَ الرِّيحِ)) وغیرہ۔ اگر سمندری ہواؤں کو ساکت کردے تو کشتیاں اپنی جگہ سے ہلیں بھی نہیں۔ شوریٰ :23((إِنْ يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ))سمندر میں فضل الٰہی سے کھانے کی اشیا خاص اور زیورات وغیرہ اور دوسری چیزوں کی عطا ربانی کا بھی اس طرح بیان آیا ہے۔