کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 290
طہٰ53۔ ((الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا))سورہ النمل:61((أَمَّن جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا))سورہ غافر:64، زخرف:10زمین کے طبعی خدوخال میں میدانوں، وادیوں اور پہاڑوں کا بہت سی مکی آیات کریمہ میں معنی خیر بیان ملتا ہے۔ وادیوں کا ذکر: ابراہیم : 37وادی غیر ذی زرع، مکہ، سورہ نمل : 18(وادی النمل) الاحقاف:24وغیرہ۔ پہاڑوں کا بیان سورہ حجر:19((وَٱلْأَرْضَ مَدَدْنَٰهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَٰسِىَ))سورہ ق:7، وغیرہ ان میں چند پہاڑوں کے نام بھی بہت اہم ہیں جیسے کوہ جودی جس پر کشتی نوح علیہ السلام ٹھہری تھی (ہود:45) کوہ طور(مریم52 وغیرہ) جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملی قصص:46 وغیرہ)اور طور سینا جس پر زیتون اگتا ہے۔ اسےسورہ التین میں طور سینین بھی کہا گیا ہے۔ زمین کے اندر پانی کے سوتوں، طبقوں کا یا زیر زمین وجود کا اور ان کے اخراج و سونک لینے کا ذکر حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کے حوالے سے سورہ ہود:44میں ہے زمین میں نہروں کے حوالے : سورہ طہٰ:53النمل :61مذکورہ بالا، القمر:12۔ زمین کے مردہ اور زندہ کرنے کا ذکر ان کی بنجر و ناقابل زراعت حیثیت اور زرخیز زمین کی حیثیت سے کیا گیا: سورہ النمل :65((وَاللَّهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ))اور اس معنی کے دوسری مکی آیات ہیں: عنکبوت :63، روم 19۔ 24، 50فاطر:9، جاثیہ5، عبس:26و مابعد یٰس(32۔ 35)(( وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ (33) وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ (34) لِيَأْكُلُوا مِن ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ))