کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 289
لحاظ سے وہ بھی لیکن اصلاًوہ قرآنی سائنس کا ایک حتمی بیان ہے جس کی تائید موجودہ سائنس کرتی ہے۔ جغرافیائی کوائف و حقائق کا جتنا ذکر مکی سورتوں میں ہے مدنی آیات میں نہیں۔ مکی آیات کی بنا پر علم؍ علوم جغرافیہ کا اولین ارتقاء ملتا ہے۔ اس میں بیانیہ جغرافیہ Descriptive geographyاور ستاروں یا کائناتی حقیقتوں سے متعلق جغرافیہ Metaphisical or Astrorimical geographyدونوں شامل ہیں۔ ان کو صرف notions نہیں کہا جا سکتا۔ زمین اور اس کے ظاہر و باطن کی آیات اور آسمان کی تمام بینات اور ان دونوں کے درمیان (خلاء و مابینہما) کی مکی آیات کو فضیلت حاصل ہے۔ مکی سورہ نوح 15، سات آسمانوں کی طبق در طبق پیدا کرنے کی حقیقت کو سورہ ملک و طلاق کی آیات بالترتیب 12 اور 3میں دہرایا گیا ہے۔ بیانیہ جغرافیہ جدید اصطلاح میں بھی جغرافیہ کے علوم مختلفہ کو بالعموم دو خانوں، قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جغرافیہ بیانیہ اور فلکیاتی، طبعیاتی جغرافیہ اسلامی ادوارارتقاء میں بھی ایسی تفہیمات تھیں لیکن واضح تر نہ تھیں۔ قرآن مجید کی مکی سورتوں کی بہت سی آیات کریمہ میں ان دونوں قسم کے علوم جغرافی کا بڑا خوبصورت اور واقعی بیان ملتا ہے جو تذکیر الٰہی کے حوالے سے آیا ہے۔ زمین اور اس کے خدوخال کے بیانیہ جغرافیہ میں بہت سی چیزیں آتی ہیں اور ان میں سے سب سے اہم زمین(ارض) ہے۔ زمین (ارض) کی ساخت اور آسمان، دنیائے بسیط سے اس کی نوعیت ارتباط و تعلق کا ذکر سورہ انبیاء 30، میں لایا کیا گیا ہے۔ ((أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا))کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا کہ تمام آسمان اور زمین دونوں جڑے ہوئے تھے اور پھر ہم نے ان دونوں کو الگ الگ کیا۔ زمین کو مہد (گہوارہ) قابل رہائش بنانے کی آیات ہیں: