کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 288
تخلیق کائنات آدم وانسان، بشر و بندہ خاکی سے بہت پہلے رب العالمین اور احسن الخالقین نے کائنات کی تخلیق مختلف مراحل میں کی اور ان کو ایام سے تعبیر کیا۔ ایام (جمع یوم)ایک دن کے معنی رکھتا ہے جو اصل معنی مراحلہ، منزلہ کا حاصل معانی ہے۔ یوم بھی مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور صبح، فجر سے آغاز کر کے اور چاشت و ظہر وغیرہ کے مراحل سے ہوتا ہوا، سہ پہر تک پہنچتا اور غروب آفتاب کے وقت مکمل ہوتا اور اکائی بناتا ہے۔ اس ہمہ گیر تخلیق کائنات میں آسمان و زمین کی تمام مخلوقات شامل ہیں۔ وہ مادی دنیا سے متعلق ہیں اور عالم ناسوت و لاہوت سے بھی۔ آسمان (سماء) اور زمین (ارض) کی مکی آیات کریمہ مدنی آیات سے ہرلحاظ سے زیادہ وقیع اور بنیادی ہیں جس طرح ان کی آیات انفس وآفاق، مکی سورتوں میں تخلیق زمین و آسمان کے آغاز و ارتقا اور تکمیل کا پورا اظہار ہے جیسے انبیاء 30۔ ((أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ))وغیرہ۔ تخلیق ارض و سما کی مکی آیات میں سے بعض یہ ہیں: انعام 1، میں ان دونوں اجرام کی تخلیق کے ضمن میں ظلمات ونور کا خاص بیان ہے اور وہ مدنی آیات میں پھر لایا گیا جیسے بقرہ: 22وغیرہ۔ چھ مراحل ((سِتَّةِ أَيَّامٍ)) کی مکی آیات ہیں۔ اعراف54۔ یونس3، ہود7۔ فرقان59اور متعدد دوسری ان کی متوازی آیات مدنی ہیں بقرہ255: حدید:4وغیرہ تعداد تفصیل اور وسعت کے لحاظ سے مکی آیات کریمہ تمام بنیادی حقائق بیان کرتی ہیں جبکہ مدنی آیات متعلقہ ان کے مضامین کو بھی اختصار سے دہراتی ہیں اور کبھی سرے سے ذکر نہیں کرتیں۔ انفس وآفاق کی نشانیوں(آیات الٰہی) کا معاملہ یہی ہے: اور ان دونوں جہانوں کی آیات کا ذکر خیر مکی آیات میں زیادہ اور واضح کردیا ہے۔ علوم جغرافیہ عام طور سے ان تمام تخلیقات کو باب عقیدہ و دین میں رکھا جاتا ہے۔ ایک