کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 286
مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ)) میں ہے۔ جب کہ تمام انسانوں کے لیے رسول بنانے کا حوالہ و ذکر سورہ نساء 79((وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ))وغیرہ پایا جاتا ہے۔ نیز سورہ نساء 170۔ (( يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ))
٭ ان تمام آیات کریمہ کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مکی آیات کے الفاظ و تراکیب کو مدنی آیات میں دہرایا گیا ہے اور کہیں کہیں اضافہ بھی ہے۔ دعوت و تعلیم و تربیت کے حوالے سے مکی و مدنی آیات کریمہ کا موازنہ بھی خوب دلچسپ ہے اور اصل و شرح یا تعریف کے معانی دیتا ہے۔
٭ قریش مکہ کی مخالفت اسلام اور عناد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدنی یہودی اور مشرک اعتراضات میں اور ان کے طریقوں میں یکسانیت ملتی ہے۔
تخلیق آدم علیہ السلام
کا باب تاریخ سے زیادہ طبعی علوم (سائنس) سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ ان کے تخلیقی مادے اور روح اور پھر ان کو نطفہ سے نسل انسانی کے وجود میں آنے کا علم عطا کرتی ہے۔ دینی و سائنسی علوم کی اس آمیزش نے ان دونوں کے لازم و ملزوم ہونے کا ہی صحیح موید و مصدق ہونے کا ثبوت ضرور دیا ہے۔
اولین تنزیل قرآنی سورہ علق کی آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کا ذکر انسان کی تخلیق سے کیا گیا اور اس کے مادہ تخلیق کو علق (خون کی پھٹکی)کہا گیا: ((خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ))دوسری مکی آیات کریمہ میں اسے ((عَلَقَةً))سے تعبیر کیا گیا۔ اور اس علقہ سے قبل کے درجہ تخلیق اور مادہ کو تراب بتایا گیا (سورہ غافر67) ((هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ))اس کی مزید تفصیل و تشریح سورہ مومنون: 14اور سورہ قیامہ: 38 میں کی گئی اور ان میں تمام درجات و مراحل تخلیق کا ذکر بتدریج کرنے کا بیان لایا گیا۔ عام طور