کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 283
مجید میں نقل کیا گیا ہے۔ مصحف اولیٰ اور خاص کر صحف ابراہیم علیہ السلام کا ذکر مکی آیات کریمہ میں خاص کیا گیا ہے اگرچہ ان کا حوالہ مضمرمانا جا سکتا ہے اور مانا بھی گیا ہے۔
سورہ الاعلیٰ کی آخری دو آیات کریمہ :18۔ 19۔ میں ((إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَى ﴿18﴾ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى))حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تفسیر میں مختلف آراء واقوال نقل کر کے دو تشریحات پر توجہ مرکوز کی ہے: ایک یہ سارا مضمون سورہ اولین صحیفوں خاص کر حضرات ابراہیم و موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں موجود تھا، مگر اس رائے کو وہ روایت و سند کی کمزوری اور مشتبہ ہونے کے سبب زیادہ صحیح نہیں سمجھتے۔ البتہ دوسری تفسیر کہ آیات سورہ 14۔ 17۔ کے مضمون کو وہ ان صحیفوں میں موجود و مذکورہونے کی روایات کو ترجیح دیتے ہیں اور حسن قوی بتاتے ہیں۔ حافظ موصوف اور ان کے مآخذ خاص کرامام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے متن و نظم قرآن کی بنا پردوسرے قول کو ترجیح نہیں دی جبکہ اولین آیات میں خطاب و بیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم متعلق ہے۔ حافظ موصوف ان آیات کریمہ کا مماثل سورہ النجم کی آیات :36۔ 42۔
(( أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَىٰ (36) وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ (37) أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ (38) وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ (39) وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ (40) ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ (41) وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ))(آخری آیات تک)میں تلاش کیا ہے۔ اور ایسی دوسری آیات کریمہ بھی مکی ہیں۔ کتب سابقہ کے مضامین کو قرآن میں شامل کرنے کا اہم موضوع ہے۔ بہر حال صحف اولیٰ کا ذکر خیر بعض دوسری مکی آیات میں بھی ہے جیسے:طہٰ133، سورہ عبس :13اور مدنی سورہ البینہ:2 میں مراد قرآن ہے۔
قرآن مجید میں سابق صحیفوں اور کتابوں کے مضامین نقل کرنے کا ایک زاویہ ہے اور اس سے اہم جہت یہ ہے کہ قرآن مجید کے مضامین و مطالب صحف اولیٰ میں تھے اور قرآن مجید ان سب کا جامع ہے۔ اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ تمام ضروری اور آفاقی مطالب و حقائق جو صحف سماویہ میں تھے قرآن مجید میں محفوظ کر دئے گئے۔ مکی سورہ الشعراء کی آیات کریمہ192۔ 197 میں آخری دو میں یہ بیان بہت