کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 280
عربی زبان و ادب کی رفعت
تمام معاصر عربوں اور خاص کران کے ادباء و شعراء کو اعتراف تھا کہ ایسا فصیح و بلیغ کلام اور ایسی بلند و رفیع زبان انھوں نے خواب میں بھی نہیں سنی۔ خود قرآن مجید نے دعویٰ پیش کیا کہ اس جیسا کلام تمام جن وانس مل کر نہیں لاسکتے اور عرب کے زباندان بھی تو اس کی ایک سورت جیسی نہیں بنا سکتے۔ کتب سیرت و روایت حدیث میں اکابروزباندان قریش کا اعتراف موجود ہے کہ ایسا شاندار کلام انھوں نے کبھی نہیں سنا۔ وہ اس کے سحر زبان و بیان سے مسحور ہوتے اور انکار و تردید کے باوجود بار بار اسے زبان نبوی سے سنتے اور سردھنتے۔ اہل زبان و ادب کا اتفاق ہے کہ ایسی جلیل و جمیل عربی نثراور اس کا بے مثال و بے نظیر آہنگ عربی زبان و ادب میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ اس نے عربوں میں فصیح و بلیغ زبان و ادب اور بلند ترین نثر کا ایک مثالی شاہکار اور ماڈل پیش کیا۔ بنیادی طور سے قرآن مجید کی عربی زبان میں معجزہ ہے۔ اس کی اولین وجہ سبب اعجاز اس کی زبان ہے جو کانوں کے راستہ یا آنکھوں کے واسطہ سے دل و ذہن میں پیوست ہو جاتی اور سارے وجود کو مسحور کردیتی ہے، وہ دہشت ووحشت کا سحر نہیں بلکہ انبساط و سرور اور اہتزاز کا سحر حلال ہے۔ الفاظ و کلمات کی برجستگی اور فصاحت و بلاغت کی بو قلمونی اس کے سوا کسی دوسرے کی زبان میں نہیں تھی کہ مہبط وحی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے ہم پلہ بننے کی جسارت نہیں کر سکتی۔ فرق صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور باقی سب کلام انسانی۔ دونوں کا فرق ظاہر ہے قرآن مجید کو اسی بنا پر عربی مبین کہا گیا ہے۔ اس کے دوسرے امتیازات کے علاوہ صرف نثری لسانی خصوصیات اسے بلند ترین عربی نثر بناتی ہیں۔ متعدد علماء قرآن اور ادباء عرب نے تسلیم کیا ہے کہ زبان وبیان اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے مکی سورتیں مدنی سورتوں سے فائق ہیں۔ نعوذ باللہ اس سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ کوئی کلام الٰہی فروتر بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا مدعا صرف اتنا ہے کہ قریش مکہ کو اپنی ٹکسالی عربی پر ناز تھا، ان کے فخر و غرور کا آئینہ شکست