کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 28
ابلاغ وترسیل اگرچہ کسی حد تک عہد نبوی میں شروع ہوچکی تھی لیکن تدوین وتالیف کا اصل زمانہ خلافت کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور حیات وکارکردگی میں روایات واخبار اوربڑی حد تک احادیث کی روایت وترسیل کمیت وکیفیت کے لحاظ سے محدود تر ہے۔ اس کے مقابلے میں مدنی عہد میمون میں کثرت سے روایات واخبار اور احادیث کی ترسیل کی گئی اور تدوین وجمع اور تالیف وتصنیف کی کوششیں بھی۔ اسباب و وجوہ میں سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ مکی دور میں اخبار وروایات کو جمع کرنے والے اتنی کثرت سے نہ تھے اور نہ ان کو ترسیل وروایت کا ذوق تھا۔ مکی دورکو بالعموم دو حصوں میں بھی بجا طور سے تقسیم کیا جاتا ہے: 1۔ قبل بعثت کا چالیس سالہ عرصہ حیات(571تا610) جب بقول شبلی رحمۃ اللہ علیہ کسی کو کیا خبر تھی کہ انہیں کے اندر سے وہ رسولِ آخر الزمان اٹھیں گے جن کی بعثت کی دعائے مستجاب ان کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی اور جن کی آمد کی نوید و بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی اور جن کی بعثت ونبوت کے منتظر ان کے اپنے اور بیگانے سب ہی تھے۔ 2۔ دوسرا بعد نبوت کا تیرہ سالہ دور میمون ومبارک(610تا 622) جب وہی نبی موعود ومنتظر لباس مجاز ہی میں نہیں پیکر حقیقت میں ان کے سامنے پورے جاہ وجلال اورتمام ترمہر وجمال اور ساری رعنائی وبرنائی کے ساتھ نہ صرف نمودار ہوا بلکہ کارفرما، کارساز وکارگزار بھی ہوا۔ دوسرے عہد آفریں دور اورتاریخ ساز عرصہ میں سید المرسلین وخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کےاپنے رسالت مآب اعلانات حق نے ترسیل وروایت کی طرح ڈالی اور اس کو وسعت اور گہرائی دی۔ تمام انسانوں کے لیے مبعوث کئے جانے کا اعلان واظہار عقل وخرد اور قلب وروح کو خیرہ کرگیا۔ زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام الٰہی کا بیان واعلان سیرت وشریعت اوردین وحقیقت کا زبانوں کا ورد وظیفہ بن کر رہ گیا۔ وہ اپنوں بیگانوں، شہریوں، بدویوں، واردین وصادرین، زائرین وتاجرین، گماشتوں اور کاروانیوں حتی کہ دشمنوں اوربدخواہوں کے ذریعہ