کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 270
تھے۔ اور وہ کھجور کے تنوں سے بنائے گئے ستونوں پر ٹکے ہوتے تھے۔ ان ستونوں کی بھی خاص اہمیت تھی جو دینی تمدنی بھی تھی۔ بعد میں ان میں جب دیواریں پتھروں سے بنائی گئیں تو ان کے ایک دو دروازے بھی لگائے گئے اور ان کو بند کرنے کا انتظام بھی کیا گیا۔
مسجد جواثی بحرین کے مقام اور قبیلہ بنو عبدالقیس کی تھی جو جزیرہ نمائے عرب کے مشرق میں عہد نبوی مکی کا آخری حصارتھا۔ وہ شہر چونکہ ایک قلعہ تھا لہٰذا اس کی مسجد کے بارے میں خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ پتھروں کی عمارت تھی اور نسبتاً پختہ بھی تھی۔ اس کے بارے میں تفصیلات نہیں ملتیں لہٰذا مزید مشکل ہے(211)۔
مکانات
امامان سیرت ابن اسحاق وغیرہ نے سیرت کے واقعات کے ضمن میں مکانات نبوی وصحابہ کرام کا ذکر بعض مقامات پر کیا ہے۔ اخبار مکہ کے مؤلف گرامی امام ازرقی نے خاص آثار مکہ کا ذکر کیا ہے اور ان میں کعبہ کی تعمیر و آثار کے حوالے سےبہت تفصیل دی ہے۔ اس کے علاوہ منازل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور منازل صحابہ کرام اور ان کے بعد خاص خاندان قریش کے رباع (مکانات اور محلوں) کا ذکر کیا ہے۔ قریش اور ان کے خلفاء کے رباع تھے۔ بنو عبدالمطلب، بنو عبدشمس، آل سعید بن العاص وغیرہ دوسرے بنو امیہ، بنو نوفل، حارث بن فہر، بنو اسد م بنو عبدالدار، بنو زہرہ، ان کے خلفاء آل قرظ، آل انمار، اخنس ثقفی وغیرہ، بنو عدی، بنو مخزوم، بنو جمح، بنو سہم اور بنو عامر۔ ان تمام منازل ورباع میں صرف ان کے جغرافیائی مقامات کا ذکر ہے کہ ان کے اصل مکانات، دار اور رباع کس کس علاقے میں تھے اور ان کے اسماء کیا تھے۔ ان کے ضمن میں وہ بعض فنی و تعمیراتی بیان بھی لاتے ہیں مثلاً منزل نبوی دار الرقطاء اور دار البیضاء کے درمیان تھی اور ان کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ لال اینٹوں اور سفید چونے سے یا صرف سفید جص سے بنائے گئے تھے لیکن یہ سب تعمیرات واسماء بعد کے زمانے کے ہیں۔