کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 27
وصدقہ اور عمرہ وحج کی بابت متزلزل ہیں۔ ان کے خود ساختہ نظریات ان شاذ وناقابل اعتبار روایات پر ان کی غلط فہمی بلکہ ناسمجھی کی وجہ سے مبنی وماخوذ ہیں جو اسلامی مسلمات و مبادیات کے منافی ہیں۔ ارکان ِ اربعہ کے مختلف مراحل واوقات میں فرضیت کا غیر حقیقی اورگمراہ کن خیال ان کو بنیادی رکن اعظم صلوٰۃ کی فرضیت کو زمانہ معراج کا بتانا ہے۔ بعثت ونبوت بالخصوص تنزیل قرآن مجید کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضو وصلوٰۃ۔ رکعتین۔ کی تعلیم جبریلی کی روایت ضرور نقل کردیتے ہیں۔ لیکن ان کی نوعیت کم اور فرضیت کمتر متعین کرتے ہیں۔ صلوٰۃ اللیل اور نوافل نبوی، مسجد حرام میں صلوٰۃ محمدی اور گھریلو مساجد مکہ میں صحابہ کرام کی نمازوں کا صرف ذکر کرکے رہ جاتے ہیں۔ بقیہ ارکانِ اسلام۔ صوم/صیام، صدقہ وزکوٰۃ اورحج وعمرہ۔ بیت اللہ الحرام سے وابستہ عبادات طواف وغیرہ کےاحکام اور ان کی نوعیت کے بارے میں وہ سکوت جاہلانہ اختیار کرتے ہیں۔ کیونکہ انکا معیار حق ویقین وہ روایات ہیں جو ان کو مدنی دور میں فرضیت ومسنونیت کا درجہ دیتی ہیں۔ جب اسلام کی اصل بنیادوں کے بارے میں ان اہل وعلم وروایت کا یہ حال بے حال ہے تو دوسرے فرائض ومنہیات، حلال وحرام احکام کا وہ کیا ادراک کرتے۔ تمام ترسیرت نگاروں اور بیشتر علماء وفضلاء کرام کا یہ خیال خام وعقیدہ فاسد ہے کہ مکی دور نبوی مغلوبیت کا دور تھا جس میں ضروری احکام ملے۔ ان کے اسی خیال باطل میں یہ حقیقت احتجاج کررہی ہے کہ جو ضروری احکام یا فرائض عائد کیے گئے وہ دین وشریعت محمدی عالمی کےاحکام ہی تو تھے۔ مکی دور نبوی میں شرعی وتشریعی مقام ومرتبہ سے متعلق سیرت نگاروں کے اس باطل رویہ نے شریعت کو دور غالبیت وسلطانی سے وابستہ ومحصور کردیا۔ (8)
قدیم اور بنیادی اخباریوں اورراویوں کا معاصرانہ پس منظر اور اس کے سیاسی، سماجی اور تمدنی احوال وظروف کےاثرات۔ ان کے اذہان وقلوب پر حاوی رہے اور وہ ان کے افکار وخیالات کو متاثر کرتے رہے۔ ان سے ان کی روایات و ترسیلات میں بھی متاخر دراندازی ہوتی رہی۔ روایات سیرت اور اخبار تاریخ کی