کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 268
مسجد حرام بیت اللہ کے ارد گرد تمام سمتوں میں ایک کامل دائرہ کی شکل میں مسجد حرام تھی جس کا فرش پکابنایا گیا تھا۔ بالعموم اس مسجد میں ہی نمازیں پڑھی جاتی تھیں اور طواف کئے جاتے تھے۔ اس کے مختلف مقامات کے نام بھی بیان کئے جاتے ہیں وہ بالکل کھلاہوا صحن تھا جو فناء الکعبہ بھی کہلاتا تھا اور اس کے ارد گرد دیواریں یا حائط(حد بندی کی چوحدی) نہیں تھی۔ اسی صحن، فناء الکعبہ، مسجد حرام اور مطاف کے قریب تمام بطون قریش کے اکابر و شیوخ کی مجالس کے مخصوص مقامات بھی تھے۔ یہ مجالس (اندیہ) کہلاتی تھیں جن کا ذکر قرآن و حدیث و سیرت میں ملتا ہے۔ ان کی سماجی، سیاسی، دینی اور تمدنی جہات بہت اہم تھیں۔ مسجد حرام کے ارد گرد دیواریں نہ ہونے کے سبب مسجد اور اس کے وسط میں واقع خانہ کعبہ دور دور سے نظر آتا اور رہنمائی کرتا تھا۔ عہد نبوی اور اس کے قبل عہد جاہلی میں بسااوقات اونٹ اور دوسری سواریوں پر بیٹھ کر بھی خانہ کعبہ طواف کر لیا جاتا تھا۔ خانہ کعبہ، مسجد حرام کی تعمیرات عہد نبوی میں عام انسانوں کی تعمیری کوششوں کااور مزدوری کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ صرف چھت یا ستونوں کی تعمیر میں ایک ماہر روی نجار(بڑھئی) یا جہازی انجینئر کا ذکر روایات سیرت و حدیث میں آتا ہے۔ ابن ہشام کا خیال ہے کہ مکہ میں ایک قبطی نجار نے تاجرانروم کے شکستہ جہاز کے تختوں سے ستون اور چھت وغیرہ کاکام کیا تھا۔ ابن اسحاق وغیرہ نے دیواروں کے تمام بطون قریش کے پتھر جمع کرنے کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعمیر کا سہران ہی کے سر باندھا ہے لیکن پتھروں کو جوڑنے کا فنی کام اور اس کے لیے مسالہ وغیرہ بنانے کاکام بلا شبہ اکابر کی بجائے پیشہ ور معماروں نے کیا تھا کیونکہ پتھروں کو جوڑے بغیر دیواریں مستحکم تو کیا کھڑی بھی نہ رہ سکتی تھیں۔ روایات میں پتھروں کے باہم پیوست ہونے کا ذکر بہرحال ہے۔ ذکر ملے نہ ملے یہ بہر حال اپنی جگہ مسلم امر ہے کہ دوسرے مہارت والے