کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 26
اور دوسرے اموی اکابر وصحابہ کے ساتھ انصاف کرسکے بلکہ وہ بنو امیہ اور ان کے اکابر پر فاسد الزامات ہی عائد کرتے رہے۔ تدوین وترسیل روایات واخبار کے قصوروں اور کوتاہیوں کے ساتھ تجزیہ وتحلیل وتنقید کے اصول وعمل سے سیرت وتاریخ کے باب میں خاص غفلت برتی گئی۔ قدیم روایت پرست مؤلفین سیرت پر اتنا الزام وذمہ نہیں عائد ہوتا جتنا جدید دور کے سیرت نگاروں اور ان کے محققین کرام پر داغ قصور لگتا ہے۔ مکی دور جاہلی اور اس کے بعد کی قبل بعثت عہد نبوی کی تاریخ وبیانئے میں ان اسباب و وجو ہ سے کافی خلائیں رہ گئی۔ (7)
مکی عہد نبوت ورسالت کی بنیادی اہمیت وکارفرمائی او رتاریخ ساز کا رنامہ قدیم وجدید سیرت نگاروں کی نظر میں خاصا محدود ہے۔ وہ نبوت ورسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے آغاز وارتقاء اور مراحل ونتائج کا ذکر ضرور کرتے ہیں مگر صرف دستیاب روایات و احادیث میں سے چند پر قناعت کرجاتے ہیں۔ آیات قرآنی اور احادیث نبوی اور خطبات اسلامی میں بعثت محمدی کی منفرد اکملیت، آفاقیت وعا لمگیریت اور ختم المرسلین کی حقیقت تک سے غافل رہ جاتے ہیں۔ روایات سیرت وتاریخ کی پیروی کی دھند میں وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلامی انقلاب، اس کے تسلسل وتواتر اور کمال کا ادراک نہیں کرتے۔ ان کے اسی قصور افہام وتفہیم کا شاخسانہ ہے کہ وہ بعثت محمدی سے اسلام کے آغاز وظہور کا تاثر دیتے ہیں اورنبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کے زمانے کو قبل اسلام کا دور بتاتے ہیں۔ اس سےزیادہ حیرت ناک بلکہ شرمناک حقیقت یہ ہےکہ ان کی غالب اکثریت بلکہ تمام تر مکی دور میں شریعت اسلامی کے وجود وظہور کے بارے میں مذبذب، متردد، متفکر اور منکر ومتوحش ہے۔ متعدد اسلامی شرعی احکام کی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ادائیگی کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ کس شریعت کی بجا آوری تھی؟ اس سوال واستفہام جاہلانہ کے جواب میں وہ قیاسات منکرات کے بدخیالی کے گھوڑے دوڑاتے، ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ اسلام اور دین وشریعت کی پنجگانہ بنیادوں میں سے وہ اقرار توحید ورسالت کے سواصلوٰۃ وصوم، زکوٰۃ