کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 258
کا دن، اکابر قریش وعرب کے استقبال وخیر مقدم کا دن، غزوات وجنگوں سے واپسی کا موقعہ اور خاص جنگوں کےدوران رجزیہ شاعری اور موسیقی کا ہیجان خیز رواج، اونٹوں کو بھگانے دوڑانے کا مواقع حدی خوانی اور عام مجالس غنا وسرود۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبل بعثت عصمت وحفاظت الٰہی کے بیان میں یہ ذکر آچکا ہے کہ دو موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں شادی کی موسیقی میں شرکت کرنی چاہی تھی مگر نہ کرسکے۔ مدینہ آمد پرانصار کی خواتین اور بچیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیر مقدم گانا گاکر کیا تھا۔ غزوہ احد میں اشراف قریش کی بیویوں نے رجزیہ موسیقی سے جذبات ابھارے تھے۔ خاص مکی سرداروں جیسے ابن خطل کی دوملازم مغنیات تھیں جو اس کے لیے گانا گاتی اور مزامیر بجاتی تھیں اور پیجو بھی گایا کرتی تھیں۔ ایک سردار مکہ عمرو بن ہاشم کی مولاۃ سارہ مغنیہ بھی تھی اور نوحہ کرنے والی بھی۔ مقیس نامی سردار مکہ دوگانے والیاں(قینات) ملازم تھیں۔ احادیث میں آتا ہے کہ اعلان نکاح کا ایک طریقہ دف بجا کر گانا گانا ہے۔ وہ حلال وحرام رشتہ ازدواج کا فرق بتانا ہے۔ دف کی آواز اعلان بن گئی۔
مدنی دور نبوی میں ان واقعات موسیقی کا ذکر احادیث وروایات میں زیادہ آتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مکی دور نبوی بھی ان روایات کو رکھتا تھا مکی دور نبوی میں یثرب کے متعدد شعراء اور امراء اور شیوخ کی گانے والیاں تھیں جیسے حضرت حسان بن ثابت خزرجی کی مجلس شمائلیں کا واقعہ ہے۔ عاشوراء کے دن یہود مدینہ وخیبر مدتوں سے عید مناتے اور اس میں گاتے بجاتے آرہے تھے۔ اور ان سے قبائل عرب نے بھی ان کو سیکھ لیا تھا۔ وہ مکی دور نبوی سے قبل کی روایت تھی جو بعد میں خلافت اسلامی کے مختلف ادوار تک جاری رہی۔ ان میں گانا بجانا دونوں ہوتاتھا۔ موسیقی اور غفا کے باب اسلامی اصول سنت یہ تھی کہ صاف ستھری موسیقی کو مباح رکھا گیا۔ اور مزامیر میں سے چند چیزوں کو جیسے دف وغیرہ۔ شہوت انگیز اور بیہودہ شعر خوانی اور گانے اور بجانے کو ناپسندیدہ قراردیا گیا۔ بہرحال موسیقی صرف جائز ہے واجب نہیں(206)۔