کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 257
مجلسوں میں شعر کےعلاوہ قصے کہانیاں بھی سنتے تھے۔ اس فن کے ماہر قصہ گو(قصاص) کا طبقہ اسی دلچسپی کے باعث پیدا ہوا تھا۔ وہ ایام جاہلیت خاص کر جنگوں کے واقعات سنا تے تھے۔ اور اپنے مخالفین کا خون گرماتے تھے۔ بسا اوقات یہ ایام العرب شعر ونظم میں ہوتے تھے اور وہ اس طرح دوسروں تک پہنچتے تھے۔ عربی ادب ومحاضرات میں اس تمدنی روایت کو السمرۃ اور سنانے والے کو السامر(سمروسمار) کہاجاتاہے اورشبانہ مجلس کا بھی یہی نام ہے۔ طبقہ السامرۃ پیشہ ورفنکاروں کا تھا اور وہ قریش مکہ میں بہت مقبول تھے۔ ان میں سے متعدد فنکاروں کا ذکر جاہلی دور میں ملتا ہے۔ (205)۔
موسیقی
موسیقی کی دونوں قسمیں گانا(غنا:Vocal) اور بجانا(مزامیر) عربوں میں بہت مقبول تھیں۔ قریش مکہ اور دوسرے عرب افراد وطبقات میں سے بہت سے ان کے دیوانے تھے۔ اور ان کی مجلس اور تقریبیں ان سے خالی نہیں رہ سکتی تھیں۔ وہ انفرادی طور سے گاتے بجاتے تھے۔ مجلسوں میں موسیقی کی دھنیں اڑاتے تھے۔ خاص تیوہاروں اور موسموں پر گانے بجانے کا اہتمام کرتے تھے عام افراد وطبقات کے گانے بجانے کے علاوہ خاص پیشہ ور اہل غنا وموسیقی ہوتے تھے۔ ان میں عورتیں خاص کر ان کی مغنیائیں بہت مقبول تھیں۔ وہ قین(قینات) کہلاتی تھیں۔ وہ آزاد پیشہ بھی ہوتی تھیں اور اکابر قریش وعرب کی ملازمت بھی کرتی تھیں۔ موسیقار مرد بھی اہل مال و دولت سے وابستہ ہوتے تھے وہ عام طور سے غزل کہلاتے تھے۔ مکہ مکرمہ سے زیادہ یثرب کے اوس وخزرج کے عرب قبیلے اور دوسرے باسی موسیقی کے بڑے دلدادہ تھے۔ خاص طور سے شادی بیاہ کے موقعہ پر ان کے گھروں میں گانے بجانے کی مجلس ضرور جمتی تھیں اور ایسا لگتاہے کہ دولہن والے کسی مغنی کو ساتھ بھیجتے تھے۔
موسیقی برائے تفریح کے خاص مواقع تھے:شادی یابارات اور نکاح کا دن، ولیمہ کا موقعہ، رخصتی کا موقعہ، تیوہار وعید قریش، یہودی عاشوراء اوریثربی عاشوراء کا