کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 25
روایات واخبار کی جمع وتدوین میں لاپرواہی بھی برتی گئی۔ جانبدارانہ عصبیت اور سیاسی مسلکیت اور خالص فسادی ذہنیت نے جاہلی دور کے قرون اولیٰ کے قریشی اکابر اور ان کے خاندانوں کے بارے میں بھی اس کا مظاہرہ کیا۔ اس کا لازمی طور سےاثر قبل بعثت کے عہد نبوی کے واقعات وروایات، احوال وظروف اور حوادث ووقائع حتیٰ کہ اداروں سے متعلق اخبار پر بھی پڑا۔ قریشی جد امجد او رمکہ شہر نو کے بانی قصی بن کلاب کی عظمت وخدمت اور جلالت سب معاصر اکابر قریش کو بھی تسلیم تھی۔ مگر وہ ان میں صرف شیخ اکبر ہی تھے۔ ان کی تقدیس وتکریم میں غلو کے علاوہ ان کے مناصب سے روایت وخبر میں اور خاص ان کی تعدادمیں اور بوقت وفات ان کی تقسیم موروثی میں کوتاہی کی گئی۔ امامانِ سیرت وتاریخ نے بالعموم اور امام ابن اسحاق/ابن ہشام وغیرہ نے بالخصوص ان کے مناصب جوملأ/مجلس قریش کا مناصب تھے صرف پانچ بتائے جبکہ امام ازرقی مؤلف تاریخ مکہ اور دوسرےمؤرخین ومحققین کے مطابق ان کی تعداد چھ تھی۔ غیر مذکورہ یا نظر انداز شدہ منصب قیادہ(فوجی قیادت ) تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مؤخر الذکر منصب جلالت وقیادت وقوت ان کی وفات کے بعدان کے فرزند اکبر عبدشمس کو موروثی تقسیم کے مطابق ملا تھا۔ بقیہ نصف مناصب، سفارہ ومنافرہ، اموال، رفادہ، قبہ واعنہ۔ جس طرح بنو عدی، بنوتیم، بنوسہم، بنوجمح، بنواسد، بنومخزوم میں ان کے خاندانوں میں ایک نسل کے بعددوسری نسل تک منتقل ہوتے رہے تھے۔ اسی طرح منصب قیادہ بنو امیہ میں عبد شمس سے ان کے فرزند امیہ اکبر کو اور ان کے بعد ان کے بیٹے حرب بن امیہ کو اور ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند اکبر ابوسفیان بن حرب اموی کو ملا تھا اور جو عہد مکی ومدنی میں اس کے آخری منصب دار تھے۔ امامانِ جانبداراور روایات عصبیت زدہ کی اس بے خبری یا قصور روایت وابلاغ کا ازالہ محققین سیرت وتاریخ کرسکتے تھے مگرروایتی مؤلفین نے نہیں کیا۔ جدید اردو سیرت نگاری کے امام شبلی نعمانی اپنے اموی۔ ہاشمی تعصب اور ہاشمی طرفداری کے سبب نہ تو مناصب مکہ کی اخبار وروایات کی تحقیق کرسکے اور نہ مکی عہد میں حضرت ابوسفیان بن حرب اموی