کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 244
نے ہجرت نبوی کے سفر سے ذرا قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سر پر بٹھایا تھا۔ سریر عام طور پرلکڑی کے بنے ہوتے تھے اور بسااوقات ان میں مونجھ وغیرہ سے بنا ہوا حصہ درمیان میں لکڑی کے تختے کی جگہ ہوتا تھا۔ بلاذری نے مکی دور کے قریش کے سریر کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سریر کا ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر حضرت اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے ایک شاندار تخت خدمت میں بھیجا تھا جس کے عمود تھے اور اس کے پائے ساگو ان کے تھے اور وہ مونجھ کا بناہوا تھا۔ و ہ زندگی بھر زیر استعمال رہا۔ ٭ لیٹنے، بیٹھنے، سونے اور کھانا کھانے وغیرہ کے لیے چٹائیوں کا استعمال عام تھا۔ وہ حصیر کہلاتی تھیں اور چھوٹی چٹائیاں ”خمرہ“ مکی دور نبوی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا سے ایک چھوٹی چٹائی(خمرۃ) مانگی تھی کہ اس پر نماز پڑھ سکیں۔ ان کے علاوہ مکی دور کےصحابہ کرام وصحابیات اور اکابر قریش کے حوالے سے بھی ان کاذکرآتاہے اور مدنی دور میں ان کی روایات بہت زیادہ ہیں۔ ٭ بستر میں بالعموم تین چیزیں ہوتی تھیں: 1۔ گدا چمڑے کا یا کپڑے کا جس میں پتیاں بھری ہوتی تھیں یا سادہ کپڑوں کا۔ 2۔ تکیہ و سادہ سر کے نیچے رکھنے کے لیے اور اس میں بھی پتیاں بھردی جاتی تھیں۔ 3۔ اوڑھنے کی چادریں، قطیفہ، حمیضہ، خمیلہ وغیرہ۔ یثرب وطائف وغیرہ کے مقامات میں موسم سرما میں کمبل اور لحاف بھی اوڑھے جاتے تھے۔ ان کے مختلف اسماء ملتے ہیں جیسے لحاف، ملحفہ، عام طور پر سردی سے بچنے کے لیے دلائی جیسی چیزیں بھی استعمال کی جاتی تھیں۔ بستر کے لیے عام طور سے فراش کا لفظ استعمال ہوتاتھا۔ شب ہجرت کی روایت ابن اسحاق میں بستر نبوی کا ذکر ملتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں بالعموم سردی نہیں ہوتی۔ لیکن جب کبھی طائف وغیرہ سے سرد ہوائیں چلتی تھیں تو موسم ٹھنڈا ہوجاتاتھا اور ان کی ضرورت پڑتی تھی لیکن ان کا ذکر بالعموم نہیں ملتا(191)۔