کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 241
خوشبو وعطر
عرب اکابر وسادات اور صحابہ کرام اور سید السادات صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو او رعطر کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن تین چیزوں سے شیفتگی تھی ان میں سے ایک خوشبو تھی اور ایک عطر دان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہمیشہ رہتا تھا۔ ایک اور اصولِ اسلامی یہ تھا کہ مردوں کی خوشبو میں رنگ نہ ہو او رخوشبو ہوجبکہ عورتوں میں رنگ غالب رہے اور بومغلوب ومخفی رہے۔ مکی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے صحابہ وصحابیات او اکابر وشرفائے قریش طرح طرح کی خوشبوئیں اور عطر استعمال کرتے تھے جیسے خلوق، مشک، عنبر، زعفران وغیرہ۔ یہ عطر کافی قیمتی ہوتے تھے اور اکثر وبیشتر یمن سے آتے تھے۔ ان میں خوشبودار تیل بھی تھے اور نہانے کے صابن جیسے نباتات بھی۔ جسم وبدن کے اعضاء چہرہ، بازو اور ہاتھ کے علاوہ خوشبووؤں کا زیادہ استعمال لباس پر ہوتا تھا۔ اور مرد حضرات داڑھی مونچھ کو اس سے معطر کرتے تھے۔ آنکھوں کی آرائش وحفاظت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مرد وخواتین سرمہ لگاتے تھے۔ مختلف سرموں میں ”اثمد“ سب سے اچھا تھا۔
عورتوں اور لڑکیوں کے لیے ناخنوں او رہاتھوں اور پیروں کو سجانا سنوارنا بھی ایک مستقل تمدنی ریت تھی۔ اس کی خاص رنگ دار خوشبوئیں تھیں۔ ان کو حنا سے یا کسی دوسری چیز سے رنگ لیا جاتاتھا۔ اشیاء زینت میں ورس(ایک گھاس) اور کست (عودہندی) شامل تھیں۔ گھروں کو اور بعد میں مسجدوں کو اور مجالس میں حاضرین کو ”بخور“ سے معطر کرنے کی روایت بھی مکی عہد نبوی میں تھی اور مقبول عوام وخواص تھی۔ ان ہی تمدنی روایات کی وجہ سے خوشبوؤں اور عطریات کی تجارت اوردرآمد بڑھی تھی اور عطارد عطارہ کے علاوہ مشاطہ کے پیشے مقبول ہوئے تھے(189)۔
زیورات
چاندی، سونے، پیتل، تانبے او ربعض دھاتوں کے علاوہ مختلف پتھروں اور