کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 240
قریشی اکابر کی ممانعت میں لمبی اور بھرواں داڑھی رکھتے تھے اور مونچھیں چھوٹی جبکہ قریشی ریت الٹی تھی، ان کی داڑھی چھوٹی ہوتی اور مونچھیں لمبی۔ ان کی تراش خراش بھی کرتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی ان کو صاف اور خوبصورت رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
عورتوں اور صحابیات کے گیسوبھی طرح طرح کے تھے:زیادہ تر عورتیں لمبے بال رکھتیں اور بعض خواتین ان کو کاٹ کر شانوں تک چھوڑ دیتی تھیں۔ وہ بالوں کے جوڑے بناتیں او ران میں چوٹیاں بھی گوندھتی تھیں۔ ان کےعلاوہ بالوں کو کنگھی کر کے کھلے رکھنے کا رواج تھا جن کو کسی زیور سے قابو میں کرتیں۔ بچیوں اورکمسن لڑکیوں کےبال بالعموم پٹے کی شکل میں ہوتے اور ان میں چوٹیاں گوندھی جاتیں۔ لڑکوں کے بال بھی چوٹیاں رکھتے تھے۔ بالوں کو سنوارنے کا کام گھریلو خواتین کرتیں، بڑی بوڑھی او ر مائیں بہنیں عورتوں کے بال سنوار دیا کرتیں۔ یہ کام باندیاں بھی کرتی تھیں۔ آرائش بدن وگیسو کےلیےخاص مشاطہ ہوتی تھیں جو پیشہ ور تھیں اور گھروں میں جاکر عورتوں اور بچیوں کے بال سنوارا کرتیں اوراجرت پاتیں(187)۔
جسم کے مختلف حصوں، چہرے، ہاتھ پیر اور بازوؤں کی زیب وزینت بھی کی جاتی تھیں اور خواتین اس میں طاق تھیں۔ جاہلی دور میں اور نبوی مکی زمانے میں غیر مسلم خواتین بالخصوص متمول اور شریف خاندانوں کی خواتین چہرے، ہاتھ پیر وغیرہ کو گدوالیتی تھیں۔ یا مصنوعی بالوں کو اپنے چھوٹے بالوں میں لگا کر لمبا کرتیں، یا چہرے اور ہاتھ وغیرہ میں سوئی چبھو کر خون کی بوندیں نکالتیں اور سرمہ او رروشنائی لگا کر زیب وزینت کرتی تھیں۔ اسی طرح دانتوں اور ہونٹوں اور پیشانیوں وغیرہ کو مصنوعی آرائش سے سجا کر سنوارا کرتی تھیں۔ اسلام نے ان سب جاہلی آرائشوں کی ممانعت کردی اور صرف سادہ تزئین کی نمائش وغیرہ سے سجانے سنوارنے کی اجازت دی۔ خضاب طرح طرح کے تھے اور ان کو استعمال کرنے کی اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کو دی گئی تھی۔ ان میں وسمہ، مہندی(الکتم والحناء) کے علاوہ پیلا(الصفر) حمرہ یا سرخ اور سفید یا سیاہ سب شامل تھے۔ اورمکی عہد نبوی میں ان سب کی اجازت تھی(188)۔