کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 239
عہد نبوی میں بھی تھی۔ اس کی خاص روایات موجود تھیں۔ مردوں کی زیب وآرائش میں خاص حصے داڑھی، مونچھ اور سر کے بال تھے۔ جسم کے دوسرے اعضاء وجوارح کو بھی سجاتے سنوارتے تھے۔ جاہلی عرب اپنے اور اپنے بچوں کے سرکے بالوں کی تراش خراش میں درمیان/چا ند کے بال مونڈ دیتے اور ادھر اُدھر کے چھوڑ دیتے تھے۔ وہ قزع تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ مرد بالعموم سرپرلمبے بال رکھتے تھے:وہ کانوں تک آتے اور ”لمہَّ“ کہلاتے تھے۔ کانوں کی لوؤں سے نیچے آنے والے”جُمۃ“ کہلاتے تھے اور کندھوں تک پہونچے والے دراز گیسو”وَفرہ“ کہلاتے تھے۔ رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں سے آرائش بدن فرماتے او رصحابہ کرام بھی ان کو اختیار کرتے تھے۔ دراصل یہ بالوں کی تراش خراش کا معاملہ تھا اور موسم کا بھی اثر کہ کبھی چھوٹے ہوجاتے اورکبھی بڑے اور دراز تر۔ مکی صحابہ کرام اور ان کے سردار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر قریش اپنے لمبے بالوں کی چوٹیاں(غدائر) گوندھ لیتے تھے جو پیچھے لٹکتی تھیں۔ گیسوئے نبوی میں دو اور کبھی کبھی چار پیٹیاں یا چوٹیاں ہوتی تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکی د ور میں د و”غدائر“ کا ذکر ملتا ہے۔ اکابر قریش کے بھی غدائر تھے۔ بالوں کو سجانے اور سنوارنے کے لیے تیل کا استعمال بھی عام تھا اور ان میں کنگھی کرنے کا بھی۔ ان کو دھونے کے لیے بعض نباتات کا استعمال ہوتاتھا۔ گرمی میں وہ سر کے بالوں میں مہندی اور دوسری چیزوں کا لیپ کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لیپ مکی اورمدنی ادوار میں کیاتھا۔ مکہ مکرمہ میں اکابر قریش اور دوسرے مشرکین اپنے بالوں میں کنگھی کرکے مانگ نکالتے اور اہل کتاب ان کو سیدھا چھوڑدیتے اور وہ”سدل“ کہلاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکی دور میں ”سدل“کرتے رہے کہ اہل کتاب کی موافقت کرتے تھے جن معاملات میں واضح احکام نہیں ملتے تھے۔ بعد میں مانگ نکالنے کا طریقہ”(فرق)“ اختیار فرمالیا تھا۔ بخاری، باب ہجری نبوی میں یہ دلچسپ اطلاع ہے کہ تمام صحابہ کرام کے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال سیاہ تھے، صرف گیسوئے صدیقی کھچڑی تھے جو خضاب سے رنگے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم