کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 236
عمامے باندھتے تھے اور وہ رنگین وسفید، عمدہ سوتی کپڑوں کے اور ریشمی ہوتے تھے۔ ان کے ملبوسات فخر وناز سے ان سماجی منزلت وسیاسی سیادت کا بھی پتہ ایک نظر میں چل جاتاتھا۔ اس کی بعض تہذیبی روایات بھی تھیں جیسے اموی سردار شیخ ابواححیہ سعید بن العاص جس رنگ اور کپڑے کا عمامہ باندھتےتھے اس دن ان کے احترام میں تمام اکابر قریش ویسا عمامہ نہیں باندھتےتھے۔ ایک دوسری تہذیبی وتمدنی روایت یہ تھی کہ جنازے میں جاتے وقت تمام شرکا ء اپنی چادریں جسم سے اتار کر ہاتھ میں لے لیتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جاہلی رسم پر پابندی لگائی کہ اس بنیاد ضعیف الاعتقادی پر تھی جو تصور توحید کے خلاف تھی۔
بعض اہم ترین اکابر قریش کے لباس فاخرہ پر متعدد احادیث اور روایات بھی ملتی ہیں:
٭ بنوسہم کے عظیم ترین سردار عاص بن وائل کے ریشمی حلہ/قباء(قباء من دیباج) کا ذکر اسلام عمر رضی اللہ عنہ کے ضمن میں ملتا ہے۔ اسی موقعہ کی دوسری روایت میں ہے کہ شیخ بنی سہم کے بدن پر ایک حلہ حبرہ تھا اور ایک قمیص بھی تھی جو ریشم کے تاروں سے آراستہ تھی۔
٭ عقبہ بن ابی معیط اموی نے مقام حجر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا اپنی چادر(رداءہ) سے گھونٹا تھا۔ (101)۔
لباس کے تمدنی روایات واقدار
مکی عہد نبوی میں لباس کے تہذیبی روایات اور تمدنی اقدار دین حنیفی کے پیروعربوں سے وراثت میں آئے تھے۔ سورہ اعراف اور سورہ انعام وغیرہ کی مکی آیات میں لباس کے بارے میں یہ اصول بیان کیاگیا ہے کہ وہ لباس سے ستر ڈھانپا کرتے اور حضرات آدم علیہ السلام وحواء علیہ السلام کے واقعہ جنت سے اس کو مدلل کیاگیا ہے کہ بے ستری کار شیطانی ہے اور عفت کے خلاف بھی ہے۔ دوسرا اہم اصول تمدن واسلام یہ دیا گیا کہ