کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 229
بہت مقبول تھے لیکن ان میں پانی کا استعمال ضرور ہوتا تھا۔ شراب مکی دور نبوی میں بھی ایک مشروب عام وخاص تھی۔ لیکن نیک فطرت اس سے بچتے تھے اورمکی صحابہ نے اس سے قطعی اجتناب سیکھ لیا تھا(178)۔
لباس وملبوسات مکی
انسان کی بنیادی ضرورت کھانے پینے کے بعد دوسری ضرورت تن ڈھانکنے اور اس کو آراستہ کرنے کی بھی ہے۔ لباس اور ملبوسات کے تہذیبی وتمدنی جلووں کی ایک جھلک کتب حدیث کے کتاب اللباس میں یکجا اور کتب سیرت میں پراگندہ طور سے دکھائی دیتی ہے۔ محدثین کرام اور سیرت نگاروں نے اپنے اپنے خاص مقاصد کی وجہ سے ان تمدنی چیزوں کا ذکر کیا ہے اور وہ ذکر سنت وسیرت کے ضمن میں بھی ہے۔ بہرحال ان دونوں قسم کے مآخذ سے مکی عہد نبوی کے ملبوسات کا خاصا ذکر ملتا ہے اور ان میں لباس نبوی وصحابہ بھی شامل ہیں۔ ان پر مفصل بحث وتجزیہ تو”عہد نبوی کا تمدن“رکھتا ہے۔ اسی سے چند عناوین کے تحت عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کے ملبوسات کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔
لباس وملبوسات کی ایک”حدِ ضرورت “ ہے جوتن کی عریانی کو ڈھانکنے تک محدود ہوتی ہے۔ وہ لازمی اور ناگزیر فرض ہے۔ دوسری حد اس سے آگے آرائش بدن اور تزئین جسم کی ہے۔ قرآن مجید نے ان دونوں کا ذکر کیا ہے اور لباس کو زینت قراردیا ہے۔ سورہ اعراف :31 میں حکم الٰہی:”اے اولاد آدم !نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرو“۔ ۔ ۔ ((خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ)) سنت نبوی اور تعامل صحابہ کرام بھی ان دونوں۔ ”حدودِ ضرورت وتزئین“ کا جامع تھا کیونکہ تمدن میں بھی اسلام توازن کا طالب ہے۔ حدِ ضرورت میں مردوں کے لیے صرف ازار(تہمد، تہہ بند) یعنی زیریں جامہ کافی تھا کہ ا س سے ان کا ستر ڈھک جاتا تھا۔ مگرحد تزئین میں بالائی بدن کا جامہ قمیص، عبا، قبا وغیرہ اور سر مبارک پر ٹوپی، عمامہ اور پورے لباس پر