کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 225
ہاشم کا خونی تعلق جد امجد عبد مناف بن قصی سے مل جاتا تھا۔ اسی بنا پر یہ تمام خاندان بنو عبد مناف ایک دوسرے کے عم زاد بھی تھے۔ خاندان صدیقی بنو تیم کا نسلی رشتہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرہ بن کعب بن لؤی پر ملتا تھا اور خاندان فاروقی بنو عدی سے کعب بن لؤی پر، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے خاندان بنو اسد سے قصی بن کلاب پر اور دوسری ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے خاندان بنو عامر لؤی سے کسی اگلی پیڑھی میں۔ اسی طرح دوسرے بطون قریش سے پدری نسب کسی نہ کسی پیڑھی پر مل جاتا تھا۔ ا ن میں سے بعض قریبی تھیں اور بعض دور کی۔ مادری نسب بھی قریشی جاہلی تہذیب وتمدن میں بڑی اہمیت رکھتاتھا اور عہد مکی نبوی میں بھی اس کی اہمیت ومنزلت میں ذرا کمی نہ آئی تھی۔ والدہ ماجدہ بی بی آمنہ بنت وہب بن عبد مناف کا خاندان بنو زہرہ خاندان رسالت سے کلاب بن مرہ سے مل جاتاتھا۔ وہ دراصل ازدواجی رشتہ قرابت تھا۔ شادی بیاہ کے تعلقات کی وجہ سے عرب ومکی تہذیب وتمدن میں خاص مودت ومحبت کارشتہ بناتھا۔ ننہال والے (اخوال) اپنے بھانجوں اور نواسوں کو اپنی بہن کی اولاد”ابن اخت القوم“ کا درجہ دے کر اپنے خاندان کا فرد وحصہ سمجھتے تھے۔ داماد اور اس کی اولاد اور رشتہ دار سب اس رشتہ سے بہت تعلق والے بن جاتے تھے اور ان کی محبت اور ان کی اعانت کو فریضہ سمجھتے تھے۔ عبدالمطلب بن ہاشم کی ننہال بنوالنجار/خزرج کی وجہ سے ان کی اولاد خاص کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو”ابن اخت القوم“ سمجھتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ عامری رضی اللہ عنہ کی ماں شموس بنت قیس کا بھی تعلق بنو نجار/خزرج سے ہی تھا۔ ان ازدواجی رشتوں کی وجہ سے قریش مکہ کے مختلف خاندانوں اور ان کے اکابر کے تعلقات یثرب کے قبیلوں خاص کرخزرج سے تھے۔ ایسے ہی دو طرفہ ازدواجی تعلقات قریش کے قبیلوں کےثقیف وہوازن کےخاندانوں سے تھے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی تھے۔ اسی وسیع تر عرب تناظر میں عہد مکی نبوی کے تہذیب وتمدن کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک وسیع کل کاایک اہم ترین جزو تھا۔ (176)۔