کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 224
کو فصاحت وبلاغت میں ممتاز سمجھا جاتا تھا۔ قوم قریش کی زبان عربی کی فصاحت میں ان کی مردانگی کو خاصا دخل تھا۔ ان کا لب ولہجہ او رزبان وبیان دونوں کا خاصا کردار ہوتا تھا۔ مہذب ومتمدن تر ہونے کے باوجود وہ بلند آواز اورکھر درے انداز میں بولنا مردانگی سمجھتے تھے۔ وہ سختی وصلابت سے بڑھ کر اکثر وبیشتر جارحانہ رنگ اختیار کرلیتے تھے۔ شوروشغب بھی اس کا ایک نتیجہ تھا۔ مزاجی سختی بھی خاصی تھی اور وہ اپنے گھر وں میں اپنی عورتوں اوربچوں کوخاص کر بیویوں کو دبا کر رکھتے تھے اور ان پر حکومت کرتے تھے۔
عورتوں نے اپنے قریشی مردوں کی اس سماجی سختی اور مزاجی صلابت کی وجہ سے تابعداری اور محبت کا وطیرہ اختیار کرلیا۔ وہ اپنے مردوں کی تابعدار ہی نہیں، انتہائی وفادار، ان کی برتری وفوقیت کوتسلیم کرنے والی اورگھروں کو چلانے والی بن گئی تھیں۔ ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قریشی عورتوں کی محبت ووفاداری، شوہر کی اطاعت وتابعداری اور بچوں کی تربیت وپرورش کی تعریف آئی ہے۔ لڑکی، لڑکے اور بچوں بالوں کی، ان کی تربیت وپرداخت میں ماں کی محبت اور عورت ذات کی شفقت آتی تھی تو ان کے باپ او رمردوں کی وجہ سے ان میں صلابت وسختی پیدا ہوتی تھی اور وہ اپنے باپ کے نقش قدم پرچلتے تھے کہ ان کا سماجی وطیرہ یہی تھا(175)۔
قبائلی عرب سے تعلقات
بیشتر ماہرین نسب اور علمائے سیرت وتاریخ کا اتفاق ہے کہ قریش مکہ کے تمام قبائل عرب سے قریبی تعلقات تھے۔ وہ دراصل خون کے رشتہ سے ان سے بندھے ہوئے تھے اور ان قبیلوں کے مختلف خاندانوں کی کسی نہ کسی پیڑھی سے جا ملتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندانی تعلق ورشتہ سب قبیلوں سے اسی بنا پر قائم تھا مگر وہ بہرحال دور کی رشتہ داریاں تھیں۔ قریش مکہ کے مختلف خاندانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورمکی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا خونی رشتہ اورقبائلی تعلق بہت قریب کا تھا اور بہت گہرا بھی۔ مثلاً بزرگ تر خاندان بنو عبد مناف کے چاروں خاندانوں۔ بنوعبد شمس، بنونوفل، بنومطلب اوربنو