کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 223
اموال بھی رکھتے تھے اور دوسرے اسباب معیشت بھی۔ ان کی تجارت وکاروبار کی بنیادی وجہ بیت اللہ کی مکہ میں موجودگی تھی، وہاں سال بھر زائرین آتے رہتے تھے اور خود قریش قریبی ملکوں میں جاتے رہتے تھے۔ دولت کی ریل پیل نے ان میں اوصاف کے ساتھ رذائل(خرابیاں) بھی پیدا کردی تھیں لیکن ان کی مالی طاقت نے ان کو طاقتور قوم بھی بنادیاتھا۔
اجتماعیت اور قومی اور قبائلی یگانگت واتحاد نے قریش مکہ کو ایک نسبتاً متحدہ اور منظم سیاسی نظام بھی دے دیا تھا۔ تمام اہم ترین بطون وخاندان قریش میں سیاسی مناصب اور انتظامی عہدوں کی ایک منصفانہ تقسیم نے سب کو جوڑ کر متحدہ قوت دی۔ قومی معاملات میں وہ تمام منصبدار وں کے علاوہ دوسرے تمام اکابر وشیوخ کو، جو مناصب سے بھی بلند ہوتے تھے، شریک کرتے تھے۔ ان کے تمام فیصلے عام طور سے اتفاق رائے سے ہوتے تھے۔ اکثریت کی رائے اور مرضی بھی اکثر کار گر ہوتی تھی مگر کوشش اجماع کی رہتی تھی۔ ایسا سیاسی نظام ان کی فوجی طاقت بنانے کا باعث بھی ہوا تھا۔ وہ پورے عرب میں سب سے طاقتور فوجی نظام تھا جس کو سب تسلیم کرتے تھے۔
مردانگی اوررجولیت، بہادری اور شجاعت، انفرادی طاقت اور قومی شہامت سب عربوں کا امتیاز ضرور تھا۔ مگر قریش مکہ ان سب سے ہر لحاظ سے بہتر اور ان پر فائق تھے۔ وہ بہتر سپاہی بھی تھے اور بہتر قائد وسالار بھی اوربہتر ماہر منتظم بھی۔ ان اوصاف مردانگی نے ان کے مردوں میں خاص کر ان کے اکابر وسادات میں ایک غرور وتکبر اور اکھڑ پن بھی پیدا کردیاتھا۔ وہ اپنے کمتر افراد وطبقات اور قبائل سے جنگ کرنا بھی پسند نہ کرتے تھے کہ اس میں ان کی انانیت کو ٹھیس لگتی تھی۔ سماجی نظام کے دوسرے میدانوں میں بھی ان کی حد سے بڑھی ہوئی مردانگی نے بڑے دلچسپ رویے پیدا اور رنگین گل کھلائے تھے۔
ان کی زبان عربی تھی جو دوسرے تمام عرب قبیلوں کی تھی۔ وہ شہری ہونے کےباوجود فصیح ترین زبان اور بلیغ ترین عربی سمجھی جاتی تھی۔ حالانکہ بدوی زبان وبیان