کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 222
مکی تہذیب وتمدن اپنی اسلامی شناخت وفطرت کے لحاظ سے مدنی اسلامی تہذیب وتمدن سے قطعی مختلف نہ تھے۔ دونوں اسلامی بھی تھے اورعرب بھی۔ دونوں میں نبوی تہذیب وتمدن کا بنیادی خمیر بھی موجود تھا۔ اور پڑوسی قوموں کے تمدنی اثرات بھی تھے۔ مگر دونوں مقامات کے سماجی ومعاشرتی فرق نے ان دونوں کو الگ الگ امتیاز بخش دیا تھا۔ وہ قریشی اور انصاری تمدن بن گئے تھے۔ ماہرین و محققین کے مطابق ان مقامی خصوصیات تہذیب وتمدن کے بنانے میں جغرافیائی حالات اور آب وہوانے بھی اپنا کردار اداکیا تھا۔ ان کی خاص قبائلی روایات کا ان پر الگ الگ اثر پڑا تھا، ان کے سماجی نظام، اقتصادی ڈھانچے اور دوسرے اداروں کےبھی اثرات تھے(174)۔ قریشی صفات عہد مکی نبوی کے تہذیب وتمدن میں قریشی فکر وعمل دونوں کا خاصا دخل رہاتھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اصلاً قریشی تھے۔ قریش مکہ کی سب سے بڑی سماجی طاقت ان کی اجتماعیت اور قومی وفاداری(solidarity) کی دو بنیادی صفات تھیں۔ اپنے تمام خاندانی اختلافات اورمقامی لڑائی جھگڑوں کے باوجود وہ دوسرے قبائل عرب کے مقابلے میں ہمیشہ ایک متحدہ قوت بن جاتے تھے۔ قریشی عوام واکابر دونوں اپنے بزرگ تر اور وسیع ترقبیلہ قریش کے وفادار اورتابع تھے اور خود کو قریشی ہی اصلاً سمجھتے تھے۔ قریش کی ایک اور اہم صفت ان کا حلم وبردباری تھی، وہ اپنی بساط بھر محبت وشرافت سے اختلافات طے کرلیتے تھے اور جنگ سے بچتے تھے۔ ان ہی صفات وخصوصیات کی وجہ سے قریش مکہ نے پورے عرب میں سب سے طاقتور اور متحدہ سماجی نظام قائم کرلیا تھا۔ ان کا اقتصادی نظام اور معاشی ڈھانچہ اسی سماجی نظام کی وجہ سے مضبوط ترین تھا اور وہ تجارت پر بنیادی طورسے استوار تھا۔ یہ صحیح ہے لیکن ایک حد تک ہی کہ جغرافیائی اسباب نے ان کو تاجر قوم بنادیا تھا، مگر وہ زرعی