کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 221
خطبہ ہشتم
مکی تہذیب وتمدن
تاریخ کی مانند تہذیب وتمدن بھی تاریخی حد بندیوں کے پابند نہیں ہوتے اور نہ ہی زمان ومکان کی سرحدوں میں مقید ہوتے ہیں۔ امام تاریخ وسماجیات ابن خلدون کی یہ فکر بہت بلیغ ووسیع ہے کہ تاریخ کے ظاہری واقعات وحوادث اصل تاریخ نہیں ہوتے وہ تو نتائج اور ثمرات ہوتے ہیں ان باطنی یا زیریں دھاروں کے جوان ظاہری واقعات وحوادث کو بناتے ہیں اور وہی اصل تاریخ بھی ہیں۔ اسی طرح تہذیب وتمدن کسی ایک قوم، ملک یا فکر وفلسفہ کا پھل نہیں ہوتے، ان کی تشکیل وتعمیر اورتوسیع میں دوسرے بھی حصہ لیتے ہیں۔ انسانی تہذیب وتمدن، خواہ وہ کسی ملک وقوم کی ہو، اس میں گذشتہ قوموں اور معاصر تمدنوں کا کافی سرمایہ شامل ہوتا ہے۔
مکی عہد کے تمدن کی بنیادیں
اسلامی مکی دور کی تہذیب وتمدن کی اصل بنیاد ودین حنیفی اور اس کے تہذیب وتمدن کے جوہر ومواد پر قائم تھی۔ اس کی ایک تعبیر یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ گذشتہ نبیوں کے تہذیب وتمدن اور ان کے مذہبی ودینی عطایا سے اور سماجی دین سے بنی تھی۔ اس میں عرب قوم کی ثقافت وتہذیب کا فکری سرمایہ بھی لگا ہوا تھا اور ان کے خاص عرب مقامی تمدن کا بھی اور وہ خالص مقامی تھا۔ قرب وجوار کے ملکوں اورقوموں خاص کر پڑوسی ملکوں ایران، عراق، شام، مصر، حبشہ وغیرہ کے تمدن نے بھی اس کو مالا مال کیا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا عطیہ تمدن وتہذیب یہ تھا کہ اسلامی فکر وعمل کو ان مقامی رنگوں میں داخل کرکے ان کو چوکھا بنایا او رعالمی مرتبہ دیاتھا۔