کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 216
خاص رحمت سے واقف اسرار بنادیاتھا اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کا علم لدنی نہیں دیا گیاتھا۔ قرآن مجید نے مکی آیات اور سورتوں میں انبیاء کرام کے امور غیب کے حقائق سے آشنا وواقف بنادیاتھا اور وہ بھی علم لدنی ہی کی قسم سے تھے جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام مفیات کے علاوہ خاص اسرار ورموز عالم تکوینی سے اسراء ومعراج کے واقعہ میں مطلح کیا گیا تھا یا حضرت یعقوب علیہ السلام اور دیگر انبیاء سابقین کو ان سے نوازا گیاتھا۔ انبیاء کرام اوررجال قرآنی کا علم لدنی قطعی ہوتاتھا کہ وہ وحی پر مبنی ہوتا تھا صاحبان طریقت کا علم لدنی طنی ہے اور ظنی اللہ لالہ وقطعی الشوت ہے اور قرآنی آیات اور حدثنی ارشادات میں اس کے ان گنت ثبوت وشواہد ملتے ہیں۔ محمدی علی لدنی کا ایک جہان علم وایقان ہے جس کا تحقیقی مطالعہ ابھی امت اسلامیہ پرواجب ہے۔ (172)۔ تاویل الاحادیث علوم لدنی اور علوم غیبی یا ظاہری واقعات وحوادث کی حقیقی وجوہ تاثیرات کا خاص علم تاویل الاحادیث مکی سورتوں میں خاص کر سورہ یوسف 6، (2، 101 میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ اسے عام طور سے مفسرین وشارحین اور سیرت نگاروں نے صرف خوابوں کی تعبیر/تعبیر رویاتک محدود کردیا ہے حالانکہ رویا اس کی صرف ایک قسم ہے اور یہ تصور فہم وتشریح محض حضرت یوسف کےخوابوں کی تاویل وتعبیر کے بیان کرنے کی آیات کریمہ کے سحر حلال کی وجہ سے ہوا۔ ورنہ خود تاویل قرآن اصطلاح میں حقیقت وکنہ کی معرفت حقیقی کا نام ہے جیساکہ آیات تاویل میں ملتا ہے:78، 82:اعراف :52۔ 53، یونس:39۔ ان ہی مکی آیات کریمہ کےمعانی کو مدنی آیات میں لایاگیا ہے۔ تاویل وتعبیر رویا کے لیے صرف تاویل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یوسف 36، ۔ 44۔ 45۔ 100 وغیرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی خوابوں اور رویا وصادقہ اور ان کی تعبیرات کا ایک