کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 214
بھی ان کی اور متعدد دوسری کلامی بحثوں کے روایات وآثار ہیں۔ آخر میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے اس تجزیاتی کارنامے کا حوالہ دینا ضروری ہے کہ تمام علوم قرآنی کو پانچ علوم میں سمودیا گیا ہے۔ 1۔ علم احکام۔ 2۔ علم المخاصمہ۔ 3۔ علم تذکیر بآلاء اللہ۔ 4۔ علم تذکیر بایام اللہ۔ 5۔ علم تذکیر بالموت ومابعد ہ آخر الذکر تین علوم تذکیر ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور قصص وایام اور واقعات موت و بعث بعد الموت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی تذکیر کرتے ہیں اور ان سب میں وغیرہ سے مخاصمہ ومباحثہ ضرور ملتا ہے۔ تاریخ انبیاء/تاریخ اسلام قصص قرآنی یا انبیاء کرام کے واقعات اور ان کی امتوں کےحالات کی تاریخ قرآن مجید کی مکی سورتوں میں سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ آئی ہے تمام معروف ومعلوم انبیائے سابقین کے حالات وسوانح اور خدمات وعطیات اور ان کے پیروکاروں اور مخالفتوں کا ذکر اصلاً تاریخ اسلام اور اس کا تواتر پیش کرتا ہے۔ حضرات یوسف وموسیٰ علیہما الاسلام پر دو کامل سورتیں، یوسف وقصص۔ مکی ہیں اور ان میں سے موخر الذکر کا بیان وذکر مکی سورتوں میں جتنا ہے اتنا مدنی سورتوں میں نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مکی سورتیں قصص قرآنی میں اصل وبنیاد کا مقام رکھتی ہیں اور مدنی سورتوں میں ان پر چند جزوی معلومات اوراضافات ہی کیے گئے ہیں۔ ان قصص قرآنی اور قصص انبیاء کا ایک تحقیقی مطالعہ الگ سے کیا جاچکا ہے۔ ان کا ایک اہم ترین زاویہ یہ ہےکہ تمام پیشروانبیاء کرام اور ان کے مومنین ومسلمین کو ایک امت واحدہ مسلمہ قراردیاگیا ہے۔ وہ صرف امت آدم، امت ابراہیم اور ملت وامت موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام نہیں تھیں بلکہ اپنی اپنی دور کی ملت نبوی اور امت رسول ہونے کے باوجود اسلامی امت واحدہ تھیں جیسا کہ سورہ انعام وغیرہ میں واضح کیا گیا ہے۔ یہ امت واحدہ کا تواتر تسلسل ا ن کے ارتقائی عمل کو بھی بتاتا ہے۔ اس کا سیرت نبوی سے سب سے اہم زاویہ