کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 211
اليتاميٰ عصمة للارامل))والا قصیدہ ابوطالب بہت مشہور ہے اور اس کے متعدد اشعار امام بخاری نے بھی نقل کیے ہیں۔ (169)۔ علم المخاصمہ/علم الکلام قرآنی علوم اورحدیثی معارف فقہ وتفقہ دین اور بصیرت وتعمق شریعت کے دروازے کھولے اور ان سے دوسرے علوم اسلامی کا ارتقا مکی دور میں ہوا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکمت اور صحابہ کرام کی مومنانہ فراست کو ان کی عرب دانش وبینش نے بھی جلادی تھی اسلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اور دین وشریعت کے تمام مبادیات وجزیات کےخلاف قریشی اکابر اور خاص کران کے علماء واہل بصیرت اعتراضات والزامات اور شکوک وشبہات کاایک لامتناہی سلسلہ چلا رہے تھے اور اپنی مدد کے لیے یثرب کے احبار علماء یہود سے بھی مواد مخاصمت ومباحثہ برآمد کرتے تھے جیسا کہ سورہ کہف کے نزول کے سلسلہ میں امامان سیرت ابن اسحاق وواقدی اور امامان حدیث بخاری وترمذی وغیرہ نے اور مفسرین کرام نے بیان کیا ہے۔ خود قرآن آیات ومتون نے بھی ان کی تنقیدوں اور ہرزہ سرائیوں کا اور سوالات واعتراضات کا ذکر متعدد مکی آیات کریمہ میں کیا ہے اور ان کے جوابات وتردیدات بھی ان ہی کے ساتھ بیان کردیے ہیں وہ بقول شاہ ولی اللہ دہلوی علم المخاصمہ کاایک قرآنی علم ہے اور اس کو جدید اصطلاح میں علم الکلام کہا جاتاہے اور کہا گیا ہے احادیث وآیات مکی میں علوم المخاصمہ والکلام کے مباحث تو کئی دفاتر تحقیق میں بھی نہ آسکیں گے لہٰذا صرف چند مکی کلامی ومخاصمی نمونے: اساطیر الاولین کا الزام وجواب النصر بن الحارث سہمی کو امام ابن اسحاق وغیرہ نے کلامی مباحث کی وجہ سے خاص کر شیاطین قریش میں شمار کیا ہے۔ وہ صاحب علم وفن شخص تھا اور ملوک(شاہان)