کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 210
خاص طور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلام جمع کردئیے ہیں۔ (167)۔ اپنے چچا ابوطالب سے اسلام پر جان دینے کا ذکر یوں فرمایا تھا: ((يا عم، والله لو وضعوا الشمس في يميني، والقمر في يساري على أن أترك هذا الأمر حتى يظهره الله، أو أهلك فيه، ما تركته)) مختلف صحابہ کرام اور صحابیات طاہرات کے مختلف مواقع کے جملے، خطابات اور ارشادات بھی ملتے ہیں جو ادبیت سے بھر پور ہیں۔ تنزیل قرآن مجید کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جن الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات گنائی تھیں وہ انتہائی بلیغ کلام ہے۔ حضرت ورقہ بن نوفل اسدی رضی اللہ عنہ کی تصدیق نبوت کا کلام بھی ان کے علم وفضل کے ساتھ ان کی ادبی زبان اور فصاحت وبلاغت کا آئینہ دار ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وغیرہ کے اسلام لانے کے واقعات وغیرہ میں بھی ادبیت ہے۔ اور دربار نجاشی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی تقریروں میں شاندار عربی ادب کےنمونے ملتے ہیں۔ متعدد دوسرے صحابہ کرام اور قریشی اکابر جاہلی کے کلام عربی میں عربی نثر کے ادبی شاہ پارے موجود ہیں(168)۔ مکی عہد نبوی میں شعر عرب امام ابن اسحاق اور ان کے جامع ابن ہشام نے اپنی سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد معاصرین کے اشعار نقل کیے ہیں۔ ان کو ہم دو تین زمانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےبچپن اور لڑکپن کا زمانہ جب خاندان عبدالمطلب کی خواتین اور مرد اکابر نے اشعار کہےجیسے وفاۃ عبدالمطلب پران کی دختروں، مداحوں اور فرزندوں کے مرثیے وقصیدے ہیں۔ ان میں ابوطالب ہاشمی کا وہ قصیدہ بہت اہم اور شعری لحاظ سے بلند تر ہے جس میں انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف کی ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے بارش برسانے اور راحت و آسانی طلب کرنے کی دعائیں ہیں۔ ((وابيض يستسقي الغمام، ثمال