کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 21
ہے کہ ان دونوں استاد وشاگردکے درمیان وہی ربط وتعلق تھاجوامام ابن اسحاق اورامام ابن ہشام میں تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ کی استاد امام سے والہانہ عقیدت ومحبت نہ ہوتی توشبلی کی سیرۃ النبی نہ وجود میں آتی اور نہ کامل وجامع بن پاتی۔ سخن گسترانہ بات نوک قلم پر آگئی توعرض واظہار کے بغیر چارہ نہیں کہ ابن ہشام رحمہ اللہ نے اپنی تہذیب وتلخیص سے اصل کتاب کی گمشدگی کی راہ ہموار کی۔ ان کی مہذب ومطرا کتاب ابن ہشام نےبوجوہ اتنی مقبولیت و شہرت حاصل کی کہ استادِ امام کی اصل کتاب سیرت رفتہ رفتہ ہوتے ہوتے مفقود ہوگئی، شبلی گرامی نے تحقیق وتدقیق اوربیان واسلوب کی عظیم الشان طرحِ نوایجاد کی مگر وہ ابن اسحاق کےطرز اسلوب تالیف سے پیچھا نہ چھڑا سکے۔ سیرۃ النبی شبلی میں مکی دورحیات کا بیانیہ توامام سیرت کی کتاب مستطاب سے بھی زیادہ مختصر، ناقص اور تشنہ وخام اور غیر منصفانہ ہے۔ دوسرے تمام اردوسیرت نگاروں نے شبلی امام کی نہ صرف تقلید کی بلکہ ان پرتمام ترتبصرہ ونقد کرنےکے باوصف ان کےغیر عادلانہ بیانئے کواپنالیا۔ مولانامحمد ادریس کاندہلوی، مولاناعبدالرؤف داناپوری، ڈاکٹرمحمد حمیداللہ جیسے بڑے اہل علم وفکر کے ہاں وہی مکی دور سیرت کے ساتھ سوتیلا رویہ موجود ہے۔ مصنف رحمۃ للعالمین قاضی محمدسلمان منصور پوری کاطریق تصنیف وتالیف خاصا نرالا ہے مگر اپنی خصوصیات کے باوجود مکی دور سیرت کوناقص ترپیش کرتاہے۔ بیسویں صدی عیسوی کے عظیم ترین اور عہد ساز اردوسیرت نگار وں کی تالیفات پر جدید دورکےمؤلفین کرا م نے روایات ومعلومات کا خاصا اضافہ کیاہے۔ مگر مکی دور نبوی کی نگارش وتدوین میں وہ عدل وانصاف اور توازن وتواتر اور جامعیت وکاملیت کے میزان میں اپنے پیشروؤں سے کم تلتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ توان کی روایت پرستانہ اور مقلدانہ ذہنیت ہے کہ وہ اپنے قدیم عربی اور جدید اردومآخذ کے طریق توازن کی تقلید کرتے ہیں۔ تمام قدیم وجدید مؤلفین سیرت کابنیادی المیہ یہ ہے کہ وہ مکی عہد نبوی کی اہمیت، کارسازی، کارفرمائی اور تعمیر عہد مردم سے کماحقہ آگاہ نہیں۔ (۳)