کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 209
کے نامور فصحائے عرب کو گونگا کردیا اور وہ اس کے اعجاز کے قائل بھی ہوگئے۔ قرآنی ادب کا کمال یہ ہےکہ وہ رواجی نثر اور فرسودہ شاعری دونوں سے ممتاز ہے اور ایک ایسا نثری ادب ہے جس کی مثال نہیں۔ اسے بے مثال ہونا بھی تھا کہ وہ انسانی کلام تو ہے نہیں، الٰہی کلام ہونے کےباعث اس کے الفاظ وکلمات، اس کا رنگ وآہنگ، اس کا مزاح واظہار اور ان سے وابستہ ان کے معانی اور ان کے معارف اسی قدر جلیل الشان ورفیع المرتبت ہیں کہ ان کی تاب لانا مشکل ہے۔ مکی سورتوں میں بھی خاص کر چھوٹی چھوٹی سورتوں میں عربی ادب کا کمال وجلال اپنی معراج پر نظر آتا ہے۔ وہ بڑی سورتوں میں بھی ویساہی ہے۔ اسی وجہ سے جب قرآن مجید نے عرب علماء فصاحت و بلاغت اور شعراء وخطباء کو چیلنج کیا کہ ایسا کلام لاؤ تو وہ عاجز رہ گئے۔ مکی سورتوں میں ادبی خصوصیات اور کمال وجلال اس لیے بی سمو گیا تھا کہ قریش وثقیف کے عرب باکمالوں کو بتایا جائے کہ معراج ادااور کلام بلاغت نظام کیا ہے۔ (165)۔
حدیث نبوی اور خاص کر جوامع الکلام خاص زبان رسالت کے ادبی شاہکار ہیں اور وہ قرآنی ادب سے یکسر مختلف ہیں۔ جوامع الکلام کو نبوی معجزہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایسی زبان فصاحت وبلاغت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی تھی کہ مختصر الفاظ میں ایک جہان معانی سمودیتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ ودعوت دین کے سلسلے میں جب قریش مکہ اور عرب جاہلی کے عام وخواص اور اہل فصاحت کو مخاطب کرکے اپنے مختصرمختصر خطبے ارشاد فرمائے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام سن کر مبہوت رہ جاتے اور اس کی صداقت وادبیت دونوں کو تسلیم کرلیتے۔ گھریلو دعوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ، کوہ صفا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد، منیٰ، مزدلفہ وغیرہ بازاروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطابات اور مکی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد خطبات اور مختلف لوگوں کے لیے یا ان کے نام فرامین وخطوط ادب نبوی کی مثالیں ہیں۔ کتب حدیث میں سیرت میں ان سے چند قیمتی خطبات ومکتوبات کا ذکر ملتا ہے اور ان سے نثری ادب عربی کا ارتقاء سمجھا جاسکتاہے۔ (166)۔
متعدد محدثین واہل سیرت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات، احادیث کے علاوہ