کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 208
کھانا وغیرہ، پینے میں پانی کا تین سانسوں میں پینا اور ہرسانس لیتے وقت برتن کا منہ سے ہٹا لینا وغیرہ۔ یمن ویسار(سیدھے ہاتھ اور بائیں ہاتھ کے استعمال) کی سنت بہت وسیع ہے۔ مکی فقہ میں ان کا سراغ لگایا گیا ہے۔ اور اسلامی احکام کے ارتقاء میں ان پر مفصل بحث ہے۔
شعر وادب
بقول شخصے شعر وادب قریش مکہ اور عرب جاہلی کی گھٹی میں پڑا تھا، بچہ پالنے سے بولنا سیکھتا اورجلد ہی اپنی عربی زبان پر قابو پالیتا اور لڑکپن ونوجوانی تک آتے آتے وہ فصاحت وبلاغت کے شہپاروں کا حافظ وماہرین جاتاتھا۔ شہری عربوں (اھل الحضارۃ) سے زیادہ بدوی عرب(اصل لبداوۃ) فصیح وبلیغ زبان بولتے جن میں شعر ونثر دونوں ہوتے تھے۔ بیشتر اکابر اور قریش کے سربرآوردہ مردوعورت اور دوسرے عرب جیسے ثقفی، یثربی، ریمنی وغیرہ شعروادب کا ذوق رکھتے تھے۔ ابن اسحاق، ابن ہشام کی روایات تسلیم کرلی جائیں تو ہر خاندان قریش کی شریف عورتیں بھی شاعری کرتی تھیں۔ مرد تو شعروادب کے امام تھے ہی۔ دین حنیفی سے شعر وادب کی میراث مکی اسلامی دور میں بھی آئی اور اسے صحابہ کرام سے زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پروان چڑھایا۔ شعر وادب کی حد تک آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذوق سخن نہیں بخشا گیا تھا کہ شاعری منصب نبوت کے کمال وعظمت کی لائق نہ تھی جیسا کہ سورہ یٰس 69 میں ہے:
((وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ))
شعر گوئی اور قرآن مجید کا یہی رشتہ ہے۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمدہ شاعری اور عمدہ شاعر دونوں کے سننے سمجھنے اور ان کے کلام کو پرکھنے کا ذوق عطا کیا گیاتھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا بھی تھا۔ نثری ادب میں سارا سرمایہ خطبہ عرب کے فصیح وبلیغ بلکہ مقفیٰ ومسجع خطبات تھے، جن کے بعض نمونے کتابوں میں ملتے ہیں۔ (164)۔
قرآن مجید کی زبان اور اس کی فصاحت وبلاغت نے تمام فصاحت وبلاغت