کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 207
پر ہی مبنی ہے۔ تمام ارکان اسلام اورعبادات اور بہت سے معاملات معاشرتی سے متعلق مسائل وقوانین ان ہی دونوں بنیادی مآخذ سے لیے گئے۔ متعدد مکی احادیث میں ان کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان میں سے بہت سے امور کا حوالہ مکی احادیث میں آیا ہے اور اس طرح مکی دور میں مکی فقہ اسلامی کا آغاز وارتقاء نظر آتا ہے۔ بعض محققین کا نظریہ خاص کر حضرت شاہ ولی اللہ کا خیال صحیح نہیں ہے کہ دور نبوی میں فقہی اصطلاحات نہ تھیں۔ صحابہ کرام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ان پر عمل کرلیا کرتے تھے اور وہ فرض، سنت ونفل کا فرق نہیں جانتے تھے، مکی احادیث میں اور قرآن کریم کی تفسیری روایات میں تمام حلال چیزوں کے درجات، فرض، سنت ونفل کا واضح ذکر ملتا ہے اور اسی طرح حرام چیزوں میں خالص اور اپنی ذات سے حرام اور فسق وگناہ کے سبب حرام ہونے کا تصور بھی ہے اور ناپسندیدہ ومکروہ کا بھی۔ یہ البتہ صحیح ہے کہ اس دور اول میں بعد کے فقہاء کرام کی خاص اصطلاحات وتعریفات کا سراغ نہیں ملتا اور نہ ملنا چاہیے کہ وہ بعد کا ارتقا ہے۔ لیکن یہ ار تقاء بھی اسی دور کے مآخذ ومصادر کی روایات واحادیث وآیات کی بنیاد پر قائم ہے۔
مکی فقہ اسلامی میں عبادات وارکان اور معاشرتی امور میں سے بیشتر چیزیں شامل ہیں جن کا ذکر مکی احادیث وغیرہ میں ہوا۔ جیسے وضو کے چار فرائض۔ منہ دھونے، کہنیوں تک ہاتھ دھونے، سرکا مسح کرنے او ردونوں پیروں کو ٹخنوں تک دھونے کا۔ ذکر قرآن مجید میں ہے۔ مکی حدیث میں اس پر پہلے د ونوں ہتھیلیوں تک ہاتھ دھونے، کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا اضافہ کیا گیا اور اسے سنت سمجھنا گیا۔ دراصل حدیث خصال فطرت میں ان چیزوں کا تمام نبیوں کی سنت کہا گیا ہے۔ اور اس کے علاوہ دوسری سنن ونوافل کا ذکر بھی ہے۔ مسنون نمازوں، روزوں، صدقوں، حج اورعمرہ کا بھی اسی طرح ذکر ملتا ہے۔ طواف روزانہ خالص سنت ہی تھا۔ ایسی متعدد سنتیں تھیں۔ کھانے پینے کے آداب میں بعض اہم ترین سنتوں کا بیان ملتا ہے جیسے دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا، بسم اللہ پڑھنا، سامنے سے کھانا