کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 206
ٹھہراتا۔ وہ صرف ایمانیات وعبادات اوردوسرے دینی معاملات پر اپنی کج فہمی کی دھند پھیلا سکتے تھے یا تاریخی واقعات اور نبوی قصص میں میخ نکال سکتے تھے۔ ان میں امی کفار مشرکین اور ان کے چندپڑھے لکھے اشخاص بہترقصے کہانیاں سنانے کے دعوے کر سکتے تھے جیسا کہ نضر بن حارث وغیرہ نے کیا تھا۔ مگر ان کے بیشتر اکابر وعوام وخواص مہر بلب رہ جاتے تھے اور شدت عناد واعتراض دوسروں سے مناظرانہ اورجدلیاتی امداد کے درجے ہوتے تھے۔ مکی دور کا یہ بھی تاریخی واقعہ ہے کہ بعض سورتوں کے نزول کےبعد ان کے فکری رہنما یان باطل نے یثرب کے یہودی احبار سے اعتراض کا مواد حاصل کیا تھا اور اس کے نتیجے میں سورہ کہف کا نزول ہوا تھا جو یہودی احبار وعلماء کے سوالات و اعتراضات کا جواب فراہم کرتا اور واقعات کو ان صحیح تناظر اور دینیات وعقائد اور عبادات کو ان کے صحیح پس منظر میں پیش کرتا اور ان کا قطعی اور صحیح پیش منظر بتاتا تھا۔ وہ یہودی عقائد وافکار کی تردید کرتا ہے۔ بعض مفکرین اسلام نے اور مفسرین کرام نے بھی کئی مکی سورتوں کی شان نزول میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ وقت ہجرت مدینہ قریب آگیا تھا۔ لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام اوریہود ونصاریٰ وغیرہ اہل کتاب کا تذکرہ اور ان سے خطاب بعض مکی سورتوں میں لایا گیاکہ مناسبت احوال کا معاملہ تھا۔ یہ خیال وتشریح جزوی طور سے صحیح ہوسکتی ہے مگر کلی حقیقت یہ ہے کہ حضرات موسیٰ وعیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے اکابر کے ساتھ اہل کتاب کا ذکر خیر شروع سے مکی سورتوں میں آتا رہا ہے جیسے سورہ مریم، سورہ طہٰ اورمتعدد مکی سورتوں میں ان عظیم انبیاء کرام کا ذکر خیر پایا جاتا ہے اور اسی طرح مختلف علوم و حقائق کا جن کوقرآن مجید انفس وآفاق کی آیات الٰہی قراردیتا ہے۔ یہ طبعی حقائق ہیں اور سائنسی وعلمی بھی۔ ان کا صرف مختصر مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے کہ مفصل بیان اور مکی ومدنی آیات کریمہ میں ان کے ذکر کا تقابلی مطالعہ دفاتر تحقیق کا مطالبہ کرتا ہے۔ مکی فقہ فقہ اسلامی بنیادی طور سے قرآن وحدیث کے متون کے بیان، تشریح وتفسیر