کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 205
مبعث النبي صلي الله عليه وسلم، مالقي النبي صلي الله عليه وسلم واصحابه من المشركين بمكة، اسلام ابي بكر الصديق رضي الله عنه، اسلام سعد بن ابي وقاص رضي الله عنه، ذكر الجن الخ، اسلام ابي ذر الغفاري ر ضي الله عنه، اسلام سعيد بن زيد رضي الله عنه، اسلام عمر بن الخطاب رضي الله عنه، انشقاق القمر، هجرة الحبشة، تقاسم المشركين علي النبي صلي الله عليه وسلم قصة ابي طالب، حديث الاسراء الخ، المعراج، وفود النصاري الي النبي بمكة، وبيعة العقبة، تزويج النبي صلي الله عليه وسلم عائشة رضي الله عنه الخ۔ )) ان کے علاوہ دوسرے ابواب بھی ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ان ابواب پر اپنی تشریح میں مختلف دوسری کتب حدیث سے مواد جمع کیا ہے۔ ان سب کا مطالعہ وتجزیہ ثابت کرتا ہے کہ مکی دور میں مکی سورتوں کی مانند مکی احادیث کا ایک قیمتی اور ضخیم ذخیرہ جمع ہوگیا تھا۔ اس نے اسلامی علوم وفنون کے ارتقاء میں بہت حصہ لیا تھا اور صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ معاصر مکی خواص کو بھی علم کی دولت سے مالا مال کیا تھا(بخاری، فتح الباری 7/236۔ 281 ومابعد، نیز 6/642۔ 683 ومابعد خاص کر حلیہ مبارک کی حدیث اور علامات نبوت وغیرہ) خاص مکی علوم قرآنی دیگر علوم وفنون میں قرآنی علوم کا ایک خاص مقام وکردار ہے کہ مکی دور میں امی قوم کو ان کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واسطہ سے عطاکیے گئے۔ ظاہر ہے کہ ان علوم قرآنی سے صحابہ کرام اور اہل ایمان کے ساتھ ساتھ اکابر قریش اور دوسرے مشرکین اور منکرین کو بہرہ ور کیا گیاتھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل اسلام کا فکری اور دینی رویہ قبول واختیار اور جذب وانجذاب کے ساتھ غور وفکر اور علمی ارتقا دینے کی طرف تھا۔ ان کے مقابل اہل شرک وعناد کا رویہ انکار وتردید اور اعتراض ونکتہ چینی کا تھا جسے قرآن کریم نے کجی، ٹیڑھ(عوج) تلاش کرنا قراردیا ہے۔ اس کےباوجود بعض حقائق انسان وکائنات ایسے تھے جن سے ان کا انکار ناممکن تھا او رتردید واعتراض کو بدیہات ومسلمات کا انکار