کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 20
کی اولین جامع وکامل سیرۃ النبی ”کتاب المبتداوالمبعث والمغازی “ نے سیرت نگاری کی روایت ڈالی۔ اما واقدی رحمہ اللہ علیہ اپنی تمام تر جودت طبع، ندرت تحقیق اور جامعیت طرز کےباوجود اما م اول ابن اسحاق کے نہ صرف پیروکارتھے بلکہ مقلدکامل بھی تھے، انہوں نے اپنی کتاب سیرت کا عنوان تک ان سے اخذ کیا: ”کتاب التاریخ والمبعث والمغازی “اس کا نام رکھاا ور بیانیہ سیرت میں ان کی پیروی کی۔ ان دونوں کے جانشین سیرت نگاروں نے ان ہی کے طرز وآدرش کواپنالیا خواہ وہ ابن اسحاق کے تلخیص نگار ومہذب ابن ہشام (م۲۱۸ھ) ہوں، یاامام واقدی رحمہ اللہ کے شاگرد وکاتب امام ابن سعد( م۲۳۰ھ) ہوں۔ دوسرے تمام ان ہی کے جامد مقلدین اور وفادار پیروکاروں میں آتے ہیں۔ تیسری صدی ہجری/نویں صدی عیسوی کےامامانِ سیرت نے وہی طریق نگارش اپنایا۔ ان میں صرف امام طبری (محمدبن جریرم۳۱۰ھ) نسبتاً بیانیہ میں کسی حدتک منفردتھے۔ مگرمکی اورمدنی ادوارحیات وخدمات کی نگارش میں اندازغیرمنصفانہ نہیں بدلا۔ مکی دور سیرت کومختصر وتشنہ اور ناقص وادھوراہی بیان کرتے رہے۔ ان سب کی تصانیف سیرت میں مکی دور کے اوراق کامدنی عہدکےصفحات سے موازنہ کریں توزمین آسمان کافرق نکلےگا، اول الذکر محض دیباچہ عہد ٹھہرے گا(۲)
جدیددورتالیف سیرت میں روایتی طرز کی پابندی بشرط استواری رہی اورتمام سیرت نگاروں نےقدیم مآخذ کی روایت نگارش اپنالی۔ اس میں مسلم سیرت نگاری کےامام عالی مقام بلاشبہ وتردد علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ (جون 1857ء۔ 18نومبر 1914ء) ہیں کہ وہ سنجیدہ اورعلمی سیرت نگاری کے بانی ہیں۔ ان کے شاگرد وجامع ومرتب علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اپنے امام استاد کی طرزتصنیف وتدوین کے پابندتھے۔ ان دونوں امامین ہمامین دورجدیدکاذکر اذکار ساتھ ساتھ کرنالازمی بھی اور انصاف کا تقاضابھی اور ان سے زیادہ شرافت وصداقت کاوطیرہ بھی۔ خاکسارراقم اس حقیقت کابرملا اعتراف تحریراً کرچکا