کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 193
خطبہ ہفتم
مکی دور نبوی میں علوم اسلامی کا ارتقاء
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خاص مصلحتوں سے امی رکھا تھا۔ ”امی“ کا مطلب ہے کہ جو شخص پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو۔ اس سے مراد یہ قطعی نہیں ہے کہ امی(امیون، امیین) لوگ صاحب علم نہیں ہوتے یا وہ عقل وفکر اور دانش وسمجھ سے بالکل کورے ہوتے ہیں، وہ عالم بھی ہوتے ہیں اور عاقل بھی۔ علم وعقل کا تعلق دراصل کچھ تو انسان کے دماغ وقلب سے ہے اور کچھ اس کے تجربہ ومشاہدہ سے اور زیادہ تر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سے۔ امی رکھنے کی مصلحتوں میں سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین وشریعت کا علم خاص طور سے وحی الٰہی کے ذریعے دیا جائے جسے”وہبی علم“کہتے ہیں۔ پڑھنے لکھنے سے جو علم حاصل کیا جاتا ہے وہ انسان اپنی صلاحیتوں اور لیاقتوں سے حاصل کرتا ہے اور اسے”اکتسابی“ کہتے ہیں۔ وہ حواس خمسہ کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسری مصلحت یہ تھی کہ”وہبی“ علم قطعی ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ علم انبیاء کرام کے لیے خاص ہوتا ہے، دوسروں کو نہیں ملتا، اکتسابی علم یقینی نہیں ہوتا۔ وہ صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ کیونکہ انسان کے پانچوں حواس اور عقل وقلب بسا اوقات غلطی کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ تیسری اہم ترین مصلحت یہ تھی کہ اسلام ودین اور نبوت محمدی کے مخالفین یہ شک نہ کرسکیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا علم کتاب وقلم کے ذریعہ ذحاصل کیا تھا۔ سید المرسلین کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الٰہی کے ذریعہ قطعی علم دیا گیا جو شک وشبہ سے بالاتر تھا اور وہ وحی جلی قرآن کریم اوروحی خفی حدیث کی صورت میں دیا گیا(155)۔