کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 185
شمال مشرقی علاقے یمامہ سے گیہوں مکہ مکرمہ آتا تھا جو ان کے اکابر کی خاص خوراک تھا۔ یمامہ کو عرب کا اناج و غلہ کا گودام کہا جاتا تھا اور اس کی رسداگررک جاتی تو مکہ میں قحط کے آثار پیدا ہوجاتے تھے۔ مآخذ کے لیے ملاحظہ ہوں، عہد نبوی کی تجارت، مذکورہ بالا مقامات و کتب، اسلامی احکام، 382۔ 410۔ قریشی معیشت پر مفصل بحث ہے اور ان چاروں ذرائع پیداوار پر بھی۔
121۔ تفصیل و بحث کے لیے فضل الرحمٰن گنوری، تجارتی سود، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، کتب و مقالات خاکسار مذکورہ بالاکے علاوہ سید سلیمان ندوی، سیرۃ النبی، 2/147۔ 149۔ حضرت عباس کے سودی کاروبار اور سود مرکب کے لیے موطا مالک، باب الربوااور طبری، تفسیر، آیت ربوا:ان کے خیال میں نہایت تدریج کے ساتھ سود کی حرمت کے احکام آئے اور مدینہ میں وہ بالکل حرام پایا۔ سورہ بقرہ :275۔ 278آیات سود ہیں۔ ان کی تفسیر و تشریح میں مفسرین نے قیمتی بحثیں کی ہیں: تفسیر طبری وابن کثیر وغیرہ کتب حدیث میں بخاری و مسلم کی کتاب التفسیر کے ابواب کے علاوہ متعدد دوسرے ابواب و مباحث، فتح الباری میں ان پر مباحث ابن حجر عسقلانی، ابن اسحاق، ابن ہشام، بلاذری وغیرہ نے بعض اکابر قریش جیسے ولید بن مغیرہ مخزومی کے سوانح میں ان کے سودی کاروبار اور ثقیف سے ان کے سودی روابط کا ذکر کیا ہے۔
خانہ کعبہ کی دوسری تعمیر مکی میں قریشی اکابر نے تمام قبائل و خاندان قریش اور ان کے اکابر سے یہ درخواست کی تھی اور سب نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اس کی تعمیر میں صرف حلال کمائی اور حلال مال لگائیں گے اور اس میں سودی مال نہیں لگائیں گے۔
122۔ سید سلیمان ندوی، سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم 2/147۔ 149سود خواری کی حرمت اضافہ سلیمانی ہے۔
123۔ مقالہ خاکسار مذکور بالا۔
124۔ زرعی جائیدادوں میں کھیت، باغ اور دوسری قسم کی چیزیں شامل ہوتی تھیں اور ان کو اموال (مال کی جمع) کہا جاتا تھا۔ مکہ مکرمہ کے قرب و جوار جیسے نخلہ میں بھی ان کی زرعی جائیدادیں تھیں۔ خاندان بنو امیہ کے سردار کریز عبشمی کی جائیداد وہاں تھی جس کو اسلامی عہد میں ترقی