کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 180
شارحین بخاری اور دوسرے سیرت نگاروں نے راوی حدیث کا یہ بیان قبول کرلیا ہے کہ قریش نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی تھی((وان قريشا الطووا عن الاسلام))لہٰذا یہ بددعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ لیکن یہ وجہ خاصی غوروفکر کی محتاج ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف معاندین اور سرکشوں کے خلاف ضرور بددعا کی تھی جیسا کہ طواف کے دوران بعض اکابر قریش نے بدتمیزی اور ظلم پرستی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کو وعید ہلاکت بھی سنائی تھی لیکن پوری قوم کی ہلاکت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت رحمت کے خلاف تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب کی ہدایت ومغفرت کی ہی دعا ہمیشہ مانگی تھی حتی کہ طائف کے سخت ترین موذیوں کے لیے بھی دعا ہدایت ہی کی مانگی تھی۔ دوسرے زمانے میں جو بعثت سے قبل کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی اور سرداری کا زمانہ ہے متعدد احناف اور اکابر اور معاصر شعراء کی شعری کا وشیں ملتی ہیں۔ ان میں ثقفی شاعر امیہ بن ابی الصلت اور حنیف قریش حضرت زید بن عمرو بن نفیل عدوی کے وہ اشعار زبان وادب کے لحاظ سے بلند پایہ ہیں جو توحید سے متعلق ہیں یا جن میں حضرت ورقہ رضی اللہ عنہ بن نوفل اسدی نے ان کی وفات کا مرثیہ کہا ہے۔ تیسرا زمانہ مکی نبوی عہد کا تیرہ سالہ ہے جب اکابر قریش اور دوسرے شعراء عرب کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام وصحابیات کے شاعرانہ کارنامے ملتے ہیں۔ ابن اسحاق نے حمایت نبوی میں ابوطالب ہاشمی کے بہت سے اشعار بلکہ قصیدے نقل کیے ہیں۔ ان کا قصیدہ لامیہ بہت بڑا ہے جس کے بیشتر اشعار کی تصحیح ابن ہشام نے کی ہے۔ دوسرے غیر مسلم مکی یا دوسرے علاقوں کے شعری ادب کے نمونے بھی ابن اسحاق وغیرہ میں ہیں جیسے ابو طالب ہاشمی کا صحیفہ مقاطعہ کے ختم ہونے پر اکابرِ قریش کا مدحیہ قصیدہ، مشہور شاعر اعشیٰ بن قیس بن ثعلبہ، بنوبکر بن وائل اسی زمانے میں اسلام لانے کے ارادہ سے خدمت نبوی میں حاضری کے لیے چلے، توایک شاندار مدحیہ قصیدہ کہا تھا۔ مشہور عرب یثربی خطیب سوید بن صامت، بنو عمرو بن عوف کے اشعار بھی نقل کیے ہیں۔