کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 179
مکی قحط میں دعائے نبوی قریش مکہ کے سخت گیر سرداروں اور اسلام ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمنوں نے جب ظلم وستم کی انتہا کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی۔ اے اللہ!ا ن کے خلاف یوسف علیہ السلام کے سات سالہ(قحط) کی مانند میری بھی سات برسوں کے قحط سے مدد فرما: ((اللَّهُمَّ أَعنِي عَلَيْهِم بِسبع كسبع يُوسُف)) یہ غالباً قریشی مقاطعہ کے جواب میں نبوی اقدام تھاتاکہ قریش مکہ کو بھی اس دکھ درد اور پریشانی کا اندازہ ہو جو مسلمانوں اور ان کے ہاشمی ومطلبی معاونوں کو ظالمانہ بائیکاٹ کے زمانے میں ہورہا تھا۔ قریشی اکابرین سے بیشتر اپنے چند ظالموں کے مظالم پر خاموش رہے تھے لہٰذا وہ بھی ظلم وستم میں خاموش شریک تھے۔ نبوی بددعا کو شرف قبولیت ملنا ہی تھا لہٰذا قحط ایک بلائے بے درماں بن کر مکہ کے باسیوں پر مسلط ہوگیا اور وہ مردار گوشت، چمڑے، ہڈیاں اور نہ جانے اور کیا کیا الا بلا کے کھانے پر مجبور ہوئے اور ان میں سے کئی لوگ ہلاک بھی ہوئے۔ وہ قحط ایسا شدید او رخشک سالی اتنی سخت تھی کہ زمین وآسمان کے بیچ ایک دھواں سا تن گیا۔ مکہ کے شیخ اور قریش کے قائد وسالار ابوسفیان بن حرب اموی، جو اپنی قوم سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور اپنے حلم وکرم کے لیے مشہور تھے، بالآخر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے کہ بس اب دعائے نبوی کا ہی سہارا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے جذباتی اپیل کی:آپ تو اطاعت الٰہی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم مضر آپ کی صلہ رحمی کی زیاد ہ مستحق ہے لہٰذا دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس قحط کو دور کرے اور خشک سالی کا خاتمہ کرکے بارش برسادے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبت ورحمت بھرا دل ان ظالموں کے لیے بھی پگھل گیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے فوراً بارش کو نازل کیا اور قحط دور کردیا۔ معاندین قریش اس رحمت عام کے عظیم مظاہرے کے باوجود بھی اپنے عناد وسرکشی سے باز نہ آئے۔ مگر قوم قریش اور دوسروں نے احسان مندی سے سرجھکادیا۔ (154)۔