کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 177
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں خیر کے تمام کاموں میں تعاون کرنا اہم ترین سماجی اصول تھا۔ اسی کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم قریش اور اپنی دینی میراث۔ دین حنیفی۔ کے تمام اچھے کاموں میں برابر شرکت کی تھی اور بسا اوقات سیادت بھی کی تھی۔ قریش کی قومی جنگ حرب الفجار میں شرکت، تعمیر کعبہ کے دو دو معاملات میں معاونت وقیادت اور حلف الفضول جیسے معاہدہ میں شرکت کارگزاری اس کی روشن مثالیں ہیں۔ غیر مسلم پڑوسیوں اور مخالف قریشیوں سے بھی ہمیشہ اچھا سلوک کیا او ر ان کے ساتھ تجارت ومعاملت میں بھی تعاون کیا۔ مکی صحابہ کرام اور مکی دور کے دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کو بھی اسی خیر کی معاونت اورقومی بھلائی اور انسانی فلاح کے کاموں میں برابر تعاون کرنے کا حکم دیا۔ ان کا ذکر سیرت وسوانح کے باب میں تفصیل سے آچکا ہے اور ان کے مآخذ ومصادر کا بھی۔ وہ دراصل قرآن مجید کے اس حکم کی تعمیل ہے کہ ہر خیر کے کام میں تعاون واشتراک کرو اور گناہ او رسرکشی میں تعاون ہر گز نہ کرو۔ پھر یہ اسلامی اور انسانی فطرت سلیمہ کا بھی معاملہ ہے اوراپنی فطرت کا بھی۔ (151)۔
قریشی سیاسی نظام سے نبوی تعاون کا سب سے بڑا معاملہ یہ ہے کہ اپنے صحابہ کرام میں سے قریشی مناصب کے منصب داروں کو ان کے عہدوں پر باقی رکھا۔ قریشی ملا ومجلس کا بھی یہ عجیب فیاضانہ سلوک تھا کہ مسلمان ہوجانے والے منصب داروں کو دین کے اختلاف کے باوجود ان سے معزول نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق تیمی رضی اللہ عنہ انساب عرب اور دیت ومغرم کے منصبدار تھے اور وہ اسلام لانے کے بعد بھی ان عہدوں پر برقرار رہے اور تمام عرب ان سے فیصلہ کراتے رہے حضرت عمر بن خطاب عدوی رضی اللہ عنہ سفارۃ قریش کے جلیل القدر اور خاصے نازک منصب پر فائز تھے۔ وہ بھی برقرار رہے کہ قریش اور دوسرے قبائل کے معاملات قومی تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب ہاشمی کی قدیم مکی زمانے میں اسلام قبول کرنے کی روایت قبول کرلی جائے تو وہ سقایہ کےمنصب پر قائم رہتے ہوئے زائرین کو پانی پلاتے رہے۔ وہ رفادہ(کھانا کھلانے) کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے اور ان کے علاوہ دوسرے اکابر کے رفادہ فنڈ میں اور