کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 176
تھے۔ ان میں جلیل القدر صحابہ کرام شامل تھے جیسے حضرات ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ، عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ، شرحبیل بن حسنہ کندی، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عامری رضی اللہ عنہ کے علاوہ متعدد دوسرے سابقین اولین تھے جو معلم تھے اور دونوں فنون سیکھاتے تھے۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ تمیمی جیسے غیر قریشی کاریگر ولوہار مولیٰ قراءت وکتابت نہ صرف جانتے تھے بلکہ حضرت سعید بن زید اور حضرت فاطمہ بن خطاب رضی اللہ عنہ کے معلم بھی تھے۔ اسی مکی دور کے دوسرے علاقوں کے کاتبین وقارئین بھی تھے جو یثرب، طائف، دوس وغیرہ میں قراءت وکتابت جانتے اورسکھاتے تھے۔ مجموعہ الوثائق میں شامل کئی دستاویزوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لخم کے داری حضرت اور بعض دوسرے لوگوں کو امان نامے دیئے تھے۔ سفر ہجرت کے نازل مرحلہ اور مشکل حال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت سراقہ بن جعشم کو ا مان نامہ لکھوا کردیا تھا۔
آزاد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے علاوہ متعدد موالی صحابہ بھی قراءت وکتابت کے فنون سے واقف تھے۔ ان میں حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ جیسے اصحاب کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ہذلی رضی اللہ عنہ مکی سابقین اولین میں تھے، انہوں نے خود اپنا صحیفہ قرآنی تیار کیا تھا جس میں مکی سورتیں بھی تھیں۔ بحرین کے حضرت الاشج کے سورہ فاتحہ لکھوائی تھی۔ اموی خاندان کے سعیدی شاخ کے حضرت حکیم بن سعید اگرچہ بعد کے مسلم تھے مگر ماہر کاتب تھے اور ان کےبرادر حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن سعید بھی کتابت سے واقف تھے۔ اس مکی دور میں قرآنی سورتوں کی کتابت، ان کے صحیفوں کی گردش، یثرب وحبشہ اور دوسری مسلم آبادیوں تک ان کی اور نئی نازل شدہ آیات کی ترسیل علوم وفنون اسلامی کے فروغ، ان کے معلمین واساتذہ اور کاتبین، فرامین او رامین نویس کے طبقات اس مکرم ومعظم پیشے کے درخشاں ابواب ہیں(150)۔
سیاسی وقومی معا ملات میں شرکت
اسلامی دین وشریعت میں اوران کے سب سے بڑے مظہر حضرت محمد رسول